بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی اجازت کے بغیر شادی شدہ مرد سے شادی کرنے کا حکم


سوال

میں کنواری لڑکی ہوں اور میں ایک شادی شدہ مرد سے شادی کرنا چاہتی ہوں، اس کے دو بچے بھی ہیں، اس کی پہلی بیوی سے بھی اجازت لے لی ہے، لیکن میرے والدین نہیں مان رہے کہ ان کی عزت خراب ہوگی پورے خاندان میں، تو کیا اب میں زبردستی اپنے والدین کو منا سکتی ہوں؟ یا میں بھاگ کر شادی کرسکتی ہوں ؟

جواب

عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجۃً ایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پڑتال کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائے دار ثابت ہوتے ہیں،شریعت نے بھی یہی تعلیم دی ہے اور بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریقہ کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً  گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے؛ اس لیے مسلمان بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ  اپنے ذمہ کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں،  ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ نیز شریعت نے لڑکے، لڑکی کے نکاح کا اختیار والدین کو دے کر انہیں بہت سی نفسیاتی و معاشرتی الجھنوں سے بچایا ہے، اس لیے کسی واقعی شرعی مجبوری کے بغیر خاندان کے بڑوں کے موجود ہوتے ہوئے لڑکے یا لڑکی کا از خود آگے بڑھنا  نعمتِ خداوندی  کی ناقدری ہے، بےشمار واقعات شاہد ہیں کہ کسی کے بہکاوے میں آکر کیے گئے نادانی کے فیصلے بعد کی زندگی کو اجیرن کر ڈالتے ہیں۔

لہذا کورٹ میرج شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً نہایت نامناسب عمل ہے جس سے گریز چاہیے؛ یہ معاشرے میں  بھی معیوب سمجھاجاتاہے اور اس طرح کے نکاح کے بعد عموماً ذہنی سکون بھی حاصل نہیں ہوپاتا،  جو نکاح کا ایک اہم مقصد ہے ؛ اس لیے  اگر مذکورہ رشتے میں وقتی جذبات اور محرکات نہیں ہیں، بلکہ ترجیح کی معقول و مشروع وجہ ہے تو بہتر یہ ہے کہ آپ بڑوں بزرگوں وغیرہ کی وساطت سے والدین کو اس جگہ شادی کرانے پر  تیار کرلیں، اور والدین کے نہ ماننے کی صورت میں ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کر کے ان کے فیصلے کو اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہوئے قبول کر لیں۔

البتہ والدین کو بھی چاہیے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کی رائے کا احترام کریں اور ایسا رویہ ہر گز نہ رکھیں  کہ اولاد کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائے جو سب کے لیے رسوائی کا باعث ہو۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں