بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین اور بیوی بچوں کے حقوق


سوال

میں پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں، الحمداللہ تنخواہ اچھی ہے، ہم مشترکہ گھر میں رہتے ہیں، میں اپنی تنخواہ کا 80 فیصد والدین کو دیتا تھا، اگست کے مہینے سے میں نے ان سے درخواست کی کہ میں ذاتی پریکٹس کے لیے کچھ پیسے جمع کرنا چاہتا ہوں، اپنی تنخواہ کا 60 فیصد گھر میں دیتا ہوں اور با قی کے بچے کھچے اپنی ضرورت کے لیے رکھتا ہوں،  باوجود میری کوشش کے کہ میں ان کا بہترین خیال رکھ سکوں، والدین کا رویہ میرے بیوی بچوں اور میرے ساتھ معاندانہ ہوتا جارہا ہے، ازدواجی معاملات سے لے کر بیوی بچوں کی دیکھ بھال تک ہر معاملے میں اعتراض، شکوک اور دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ایسے میں الگ گھر ، بیوی بچوں کے حقوق شریعت کے رو سے کیا احکام ہیں؟ اگر والدین یہ مطالبہ کریں کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر صرف والدین اور بہن بھائیوں کا خیال رکھوں تو کیا حکم ہے؟ الگ گھر کی صورت میں، میں والدین کو تنخواہ کا کتنا فیصد دینے کا پابند ہوں؟ اگر وہ کہیں گھر سے نکل جاؤ اور بعد میں کہتے ہیں واپس آجاؤ تو کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟ شریعت کی روشنی میں جواب دیجیے۔

جواب

شریعتِ مطہرہ نے ماں باپ اور بیوی بچوں دونوں کو علیحدہ حیثیت اورمرتبہ دیا ہے اور دونوں کے علیحدہ حقوق مقرر کیے ہیں، اس طور پر کہ دونوں کے مرتبہ اور مقام کو سمجھ کر اگر کوئی شخص ان کے حقوق کی بجا آوری کرے تو کبھی ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے، بس اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ رب العزت نے ماں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ  ماں کی اطاعت وفرماں برداری کو بھی لازم قرار دیا ہے، جب کہ بیوی کے صرف حقوق کی ادائیگی لازم ہے، نہ کہ اس کی اطاعت شعاری وفرماں برداری، بلکہ بیوی کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی مطیع وفرماں بردار بن کر رہے، احترام دونوں ہی کو اپنے مرتبہ کے لحاظ سے حاصل ہے اور ذمہ داریاں بھی دونو ں سے متعلق الگ الگ طے ہیں۔

لہذا والدین کا یہ مطالبہ درست نہیں کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر صرف والدین اور بہن بھائیوں کا خیال رکھا جائے اور نہ ہی والدین، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر بیوی بچوں کی طرف ساری توجہات مبذول کرنا درست ہے، اعتدال کے ساتھ دونوں کے حقوق ادا کرتے رہیں۔ اگر دونوں کا اتفاق کے ساتھ ساتھ رہنا مشکل ہو تو یہ کرسکتے ہیں کہ بیوی کو ایسی علیحدہ رہائش دے دیجیے جس میں دوسرے کا عمل دخل نہ ہو، خواہ وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ہو، اور آپ اپنے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں قطعاً کوتاہی نہ کیجیے۔

 اگر والدین کی خدمت کا کوئی اور بندوبست ہے تو  ان سے جدا ہونے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن جدا ہونے کے بعد بھی ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جائے۔

اگر والدین کے پاس اپنا مال نہیں تو ان کا خرچہ بیٹے کے ذمہ لازم ہوتا ہے، اسی طرح اگر بہن بھائی چھوٹے ہیں اور والدین کے پاس مال نہیں ہے تو بقدرِ وسعت ان کا خرچہ بھی بڑے بھائی کو ادا کرنا ہوگا؛ لہذا ان کی ضروریات کو  مدنظر رکھتے ہوئے تنخواہ میں ان کا حصہ رکھ لیا جائے اور اگر ان کے پاس مال ہے تو تنخواہ میں سے جس قدر چاہیں دے سکتے ہیں،  شرعاً فیصد کے اعتبار سے والدین کا حصہ مقرر نہیں ہے، اصل بات ان کی ضرورت ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں