بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کے ساتھ برے رویہ کا ازالہ کیسے ہو؟


سوال

میں تین سال قبل والدین کے ساتھ حج پہ گئی تھی، جانے سے ایک دن قبل والدہ سے تلخ کلامی ہو گئی تھی جس سے حج کا ولولہ یہیں سے مدہم ہو گیا، پتا نہیں اللہ نے شاید  مجھے سزا دینے کے لیے بلایا تھا، خواہ مخواہ اس مبارک سفر میں میرا والدین سے جھگڑا ہونے لگا، حرم مکہ میں بھی  میں ان سے الجھنے لگی، پھر مدینہ جا کر والدہ سے بے ادبی ہو گئی،  بس اس دن سے میری دنیا و آخرت برباد ہو گئی،  میرا دل ظلمت سے بھر گیا۔ میں نے اللہ سے بہت معافی مانگی،  عرفات میں بھی،  مگر دل کی سیاہی دور نہ ہوئی۔ ہر وقت کفر اختیار کرنے کا دل چاہتا ہے۔ قرآن کی بے ادبی دل میں آتی ہے۔ اللہ،  رسول،  کعبہ، مدینے کا نام بھی نہیں لے سکتی،  وحشت ہوتی ہے سن کے بھی۔ میں نے گھر آ کر والدین سے معافی مانگی بہت زیادہ،  مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر پیر کی رات کو میرا دل والدین سے متنفر ہونے لگتا ہے،  فضول سی بات دماغ میں آتی ہے اور میں ان سے گستاخی کرتی ہوں ۔ زبان بند کرنے سے بھی نہیں رکتی۔ زبان سے نہ بھی کہوں تب بھی دل میں ان کی برائی آتے  ہی بس عذاب شروع ہو جاتا ہے۔ نہ قرآن کھول سکتی ہوں نہ اللہ کا نام۔ پھر شام کو سب ختم،  پھر معافی مانگتی ہوں ان سے،  ہر ہفتے یوں ہی ہوتا ہے۔

میں اگرچہ والدین کی نافرمان تھی،  مگر میں تو سنورنے کے لیے اللہ کے در پر گئی تھی اس نے مجھے مزید گناہ میں کیوں مبتلا کر دیا! میں بہت پریشان ہوں،  ہر ہفتے جیسے ہی دل میں والدین کی برائی آتی ہے جو ٹالے نہیں ٹلتی ایسا حال دل کی وحشت بے سکونی کا ہوتا ہے کہ دل خودکشی کو چاہتا ہے۔ میں کیا کروں؟  کیسے توبہ کروں؟  مار دوں اپنے اپ کو؟ والدین سے بھی معافی مانگ مانگ کر تھک گئی ہوں؟ پھر ہرہفتے ان کی بے ادبی،  پھر معافی،  وہ بھی مجھ سے تنگ آگئے، مجھے سب کاموں میں خسارہ ہو رہا ہے۔ کیا میں ایمان سے نکل گئی ہوں؟  کیا واپسی کا کوئی راستہ نہیں؟ میں تنگ آگئی ہوں اپنی زندگی سی؟کیا حرم جاکر معافی مل سکتی ہے؟  مگر اب تو میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں ۔ مجھے  کوئی حل بتا دیں، میری معافی کس طرح ہو سکتی ہے؟ آپ سے التجا ہے میری معافی، والدین کی فرماں بردار اور دنیا آخرت سنورنے اور نیک رشتے کی دعا کی درخواست ہے، رشتے کی وجہ سے بھی والدین پریشان ہیں!

جواب

آپ اللہ تعالی سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرتی رہیں اور کوشش کریں کہ پیر کے دن جس دن طبیعت خراب ہوجاتی ہے اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھیں ،فارغ بالکل بھی نہ رہیں، نیز جو خیالات دل میں خود بخود آجائیں اس سے پریشان نہ ہوں ،اوروالدین کے کے لیے کثرت سے ایصالِ ثواب کریں ۔کسی اچھے ماہر نفسیات سے علاج کرائیں اور ساتھ ساتھ درود شریف اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ کاورد کرتی رہیں اس کے باوجود اگر والدہ کی نافرمانی ہوجائے تو ان سے معافی مانگ لیا کریں۔

 اللہ پاک نے جس حال میں رکھا ہے  حتی الامکان اس میں خوش رہنے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ کا شکر کثرت سے ادا کریں، تقدیر اور اللہ کے فیصلے پر راضی نہ ہونا، شکوہ شکایت اور اعتراض کرنا یا دل میں رکھنا ان نفسیاتی مسائل کی بنیاد ہے، انسان جب اپنے آپ کو زیادہ کا مستحق سمجھ رہاہوتاہے اور اسے اپنے گمان کے مطابق مقام ومرتبہ اور دنیا نہیں ملتی تو اس میں ناشکری اور بے قراری کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں