بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا دماغی معذوری کی بنا پر بد دعائیں دینا اور ناراض ہونا


سوال

میری والدہ مرگی کے مرض میں اپنے ہی بچپن سے مبتلا ہیں۔ اب وہ الحمداللہ ۶۵ سال کی ہیں، مگر ان کی دماغی حالات مرگی کی وجہ سے بگڑتے رہے، گر گر کر وہ دماغی چوٹ لگنے سے عجیب ہوتی رہیں ۔وہ بہت جلدی ناراض ہو جاتی ہیں، منہ بنا بنا کے رکھتی ہیں چھوٹی سی بات پر کئی کئی دن۔ کچھ برا لگ جائے تو صبح سے رات کر دیتی ہیں شور کر کر کے۔ مارنے کو دوڑتی ہیں، گالیاں بہت بکتی ہیں۔ اپنی اولاد کو برا برا کوستی ہیں، ایک بیٹا ہے، اسے کہتی ہیں اللہ کرے تو مر جائے، تیرا ایکسیڈنٹ ہو، بیٹی کو بولتی ہیں " تیرا میاں تجھے طلاق دے دے، تیری اولاد نا ہو، بے اولاد رہ تو"۔ ہم گھر والے بہت ذہنی اذیت میں رہتے ہیں، اس دن جب وہ ایسا کرتی ہیں۔ ہم کبھی چپ چاپ سن لیتے ہیں مگر کبھی برداشت نہیں ہوتی تو بدتمیزی کر دیتے ہیں، آپ ہمیں پلیز بتائیں کہ ایسے میں ہم کیا کریں؟ ہمیں تو نماز روزہ بھی ضائع ہوتا لگتا ہے، ہم اللہ کے سامنے کس منہ سے جائیں؟ پلیز آپ ہمارے لیے راستہ نکالیے کہ ہم کس طرح اپنی ماں کی نا فرمانی سے بچ سکتے ہیں؟  جب کہ ہم بے قصور بھی ہوں!

جواب

آپ کی والدہ چوں کہ دماغی طور پر معذور ہیں؛ اس لیے آپ لوگوں کو چاہیے  کہ آپ لوگ ان کی ڈانٹ ڈپٹ اور ناحق غصہ کا برا نہ منائیں، اور مستقل صبر سے کام لیں، آگے سے ان کو جواب دینے اور بد تمیزی کرنے سے مکمل اجتناب کریں، اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ  سے صحت اور شفا کی دعا کرتے رہیں، باقی اگر آپ کی والدہ اپنی اس دماغی معذوری کی وجہ سے بلا وجہ آپ سے ناراض ہوتی ہیں اور بد دعائیں دیتی ہیں تو اس سے آپ کو ان شاء اللہ نقصان نہیں ہوگا، بشرطیکہ آپ چپ چاپ سن لیا کریں اور کوئی بدتمیزی نہ کریں، بلکہ دل میں بھی ان کے بارے میں کوئی بوجھ اور نفرت نہ آنے دیں، دل سے ان کی خدمت اور دعا کریں جیسا کہ انہوں نے آپ کے بچپن میں آپ کی پرورش کی اور اس دوران ہر تکلیف و مشقت کو خوشی سے برداشت کیا۔

اور اگر کبھی غلطی سے خدا نخواستہ بے ادبی یا بدتمیزی ہوجائے تو فوراً ان سے معافی مانگ کر ان کو منا لیا کریں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص  نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرے والدین بڑھاپے کو پہنچ چکے ہیں، اور میں نے ان کی وہ تمام خدمت کی ہے جو وہ میری بچپن میں کرتے تھے، تو کیا میں نے ان کا حق ادا کردیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں،تم نے ان کا حق ادا نہیں کیا، کیوں کہ تمہارے والدین تمہاری زندگی کی تمنا اور محبت میں تمہاری خدمت کیا کرتے تھے اور تم ان کی موت کی تمنا دل میں لیے ہوئے ان کی خدمت کرتے ہو۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوآ اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا ﴾ [الإسراء: 23 - 25]

تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل (3/ 252):

[سورة الإسراء (17) : آية 23، 24، 25]

﴿وَقَضى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما وَقُلْ لَهُما قَوْلاً كَرِيماً﴾

"﴿وَقَضى رَبُّكَ﴾ وأمر أمراً مقطوعاً به  ﴿أَلَّا تَعْبُدُوا﴾ بأن لا تعبدوا ﴿إِلَّا إِيَّاهُ﴾؛ لأن غاية التعظيم لا تحق إلا لمن له غاية العظمة ونهاية الإِنعام، وهو كالتفصيل لسعي الآخرة. ويجوز أن تكون أن مفسرةً ولا ناهيةً. ﴿وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً﴾ وبأن تحسنوا، أو وأحسنوا بالوالدين إحساناً؛ لأنهما السبب الظاهر للوجود والتعيش، ولا يجوز أن تتعلق الباء بالإِحسان؛ لأن صلته لا تتقدم عليه، ﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما﴾ إِمَّا هي إن الشرطية زيدت عليها ما تأكيداً ولذلك صح لحوق النون المؤكدة للفعل، وأحدهما فاعل يَبْلُغَنَّ وبدل على قراءة حمزة والكسائي من ألف «يبلغان» الراجع إلى «الوالدين»، وكلاهما عطف على أحدهما فاعلاً أو بدلاً ولذلك لم يجز أن يكون تأكيداً للألف، ومعنى عِنْدَكَ أن يكونا في كنفك وكفالتك، ﴿فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ﴾، فلا تتضجر مما يستقذر منهما وتستثقل من مؤنتهما، وهو صوت يدل على تضجر. وقيل: هو اسم الفعل الذي هو أتضجر، وهو مبني على الكسر لالتقاء الساكنين وتنوينه في قراءة نافعٍ وحفص للتنكير. وقرأ ابن كثير وابن عامر ويعقوب بالفتح على التخفيف. وقرئ به منوناً وبالضم للاتباع كمنذ منوناً وغير منون، والنهي عن ذلك يدل على المنع من سائر أنواع الايذاء قياساً بطريق الأولى. وقيل: عرفاً كقولك: فلان لا يملك النقير والقطمير، ولذلك منع رسول الله صلّى الله عليه وسلّم حذيفة من قتل أبيه وهو في صف المشركين، نهى عما يؤذيهما بعد الأمر بالإِحسان بهما، ﴿وَلا تَنْهَرْهُما﴾ ولا تزجرهما عما لا يعجبك بإغلاظ.وقيل: النهي والنهر والنهم أخوات، ﴿وَقُلْ لَهُما﴾ بدل التأفيف والنهر، ﴿قَوْلًا كَرِيماً﴾ جميلاً لا شراسة فيه".

﴿وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما كَما رَبَّيانِي صَغِيراً﴾

﴿وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ﴾ تذلل لهما وتواضع فيهما، وجعل للذل جناحاً كما جعل لبيد في قوله:

وَغَدَاةَ رِيحٍ قَدْ كشفت وَقرة ... إِذْ أَصْبَحَتْ بِيَدِ الشَّمَالِ زِمَامُهَا

للشمال يداً أو للقرة زماماً، وأمره بخفضه مبالغة أو أراد جناحه كقوله تعالى: ﴿وَاخْفِضْ جَناحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾. وإضافته إلى الذل للبيان والمبالغة كما أضيف حاتم إلى الجود، والمعنى واخفض لهما جناحك الذليل. وقرئ «الذل» بالكسر وهو الانقياد والنعت منه ذلول. ﴿مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ من فرط رحمتك عليهما لافتقارهما إلى من كان أفقر خلق الله تعالى إليهما بالأمس. ﴿وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُما﴾ وادع الله تعالى أن يرحمهما برحمته الباقية، ولاتكتف برحمتك الفانية وإن كانا كافرين لأن من الرحمة أن يهديهما. ﴿كَما رَبَّيانِي صَغِيراً﴾ رحمة مثل رحمتهما علي وتربيتهما وإرشادهما لي في صغري وفاء بوعدك للراحمين.

روي: أن رجلاً قال لرسول الله صلّى الله عليه وسلّم: إن أبوي بلغا من الكبر أني أَلي منهما ما وليا مني في الصغر فهل قضيتهما حقهما. قال: لا فإنهما كانا يفعلان ذلك وهما يحبان بقاءك وأنت تفعل ذلك وتريد موتهما).

﴿رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِما فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صالِحِينَ فَإِنَّهُ كانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُوراً﴾

﴿رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِما فِي نُفُوسِكُمْ﴾ من قصد البر إليهما واعتقاد ما يجب لهما من التوقير، وكأنه تهديد على أن يضمر لهما كراهة واستثقالاً. ﴿إِنْ تَكُونُوا صالِحِينَ﴾ قاصدين للصلاح. ﴿فَإِنَّهُ كانَ لِلْأَوَّابِينَ﴾ للتوابين.

﴿غَفُوراً﴾ ما فرط منهم عند حرج الصدر من أذية أو تقصير، وفيه تشديد عظيم، ويجوز أن يكون عاماً لكل تائب، ويندرج فيه الجاني على أبويه التائب من جنايته لوروده على أثره".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں