بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا بکری پال کر بیٹے کو قربانی کے لیے دینا


سوال

زید کی امی کے پاس ایک بکری ہے،تقریباً ایک سال تک اس کی ماں اس بکری کو اپنے خرچ سے کھلاتی اور پلاتی رہی.اب اس کی ماں وہ بکری زید کے حوالے کرکے کہتی ہے : بیٹا یہ لو بکری تم اس کی قربانی کرو, اب آیا زید اس بکری کی قیمت اپنی ماں کو دے سکتا ہےیا بغیر قیمت دے کر قربانی کرے؟

نوٹ:  زید صاحب نصاب ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بکری چوں کہ زید کی والدہ کی ملکیت ہے ؛ اس لیے اسے اختیار ہے  جس طرح چاہے اپنے بیٹے کو دے دے، خواہ قیمت لے یا ویسے ہی بغیر قیمت لیے مفت دے دے۔  اور  بکری لینے کے بعد زید اس سے اپنی واجب قربانی ادا کرسکتا ہے۔ 

اور اگر زید کی والدہ بھی صاحبِ نصاب ہے،( یعنی  اس کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں   ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا ضرورت سےزائد اتنا سامان یا کوئی بھی مال موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہو) تو زید کی والدہ پر بھی قربانی واجب ہوگی، وہ ایک بکری زید اور اس کی والدہ دونوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی۔

مذکورہ جواب اس صورت میں تھا کہ زید کی والدہ  اس کو اپنی  بکری ملکیتاً دے دے، لیکن اگر ملکیتاً نہ دے، بلکہ زید کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کا کہے تو اس صورت میں زید وکیل ہوگا، اور یہ قربانی والدہ ہی طرف سےادا ہوگی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں