ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، والد کا انتقال ہمارے لڑکپن میں ہوچکا تھا، ایک بہن کی شادی ہوئی، وہ امریکہ چلی گئی اور بڑے بھائی شادی کے 5 سال بعد اپنے گھر منتقل ہوگئے اور ایک بھائی امریکہ چلا گیا۔ رہے ہم دو بھائی، ایک بہن اور والدہ ، ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ والدہ کے پاس کچھ رقم تھی، انہوں نے خواہش کی کہ اپنا کوئی گھر ہو تو ہم دونوں بھائیوں نے مکان کا سودا کیا، جس میں ابتدائی طور پر میں نے 50%، بھائی اور والدہ نے 25٪، 25% ڈالا اور بقایا بینک سے قرضہ لیا جو کہ ہم دونوں بھائیوں نے ادا کیا اور بعد میں مکان کی مکانیت میں اضافہ کرنے میں بھی روپیہ لگاتے رہے۔ مکان ہم نے والدہ کے نام لیا تھا۔ اور اسی درمیان چھوٹی بہن کی شادی بھی ہو گئی اور وہ بھی امریکہ چلی گئی۔ ہم دونوں والدہ کے ساتھ اسی مکان میں رہے۔ دس سال بعد ہم دونوں بھائی بھی بمع والدہ امریکہ منتقل ہوگئے اور مکان کرائے پر دے دیا۔ 2009ء میں والدہ کا انتقال ہو گیا، چوں کہ مکان والدہ کے نام ہے، اس لیے وراثت میں ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں، ہم دونوں بھائی نہیں چاہتے کہ ہمارے ساتھ یا دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ حق تلفی ہو ا، اس لیے فیصلہ کرنے میں آپ سے مدد درکار ہے۔
اگر مذکورہ مکان کی خریداری میں آپ دونوں بھائیوں نے مذکورہ رقم بطورِ شراکت شامل کی تھی اور رقم ملاتے وقت اس بات کی تصریح بھی کی گئی تھی تو مکان کی موجودہ مالیت میں آپ دونوں بھائیوں کا بطورِ شراکت حصہ ہوگا، والدہ کا حصہ ان کی وفات کے بعد ورثا میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔
اگر آپ دونوں بھائیوں نے یہ رقم اس وقت بطورِ شراکت ملانے کی تصریح نہیں کی تھی تو یہ پورا مکان والدہ کی وراثت میں شامل ہو کر ورثا میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔
والدہ مرحومہ کی جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل جائیداد کو 10 حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ کے ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔
یعنی سو روپے میں سے 20 روپے ہر بیٹے کو اور 10 روپے ہر بیٹی کو ملیں گے، فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200143
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن