بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے حرام مال میں سے قرض لینے کا حکم


سوال

والد صاحب اپنے بچوں کو الگ الگ کرنا چاہتے ہیں اور مال حرام یا مشتبہ  ہے،  حرام یا مشتبہ مال میں سے بطور قرض اپنا حصہ لینا یہ نیت کر کے کہ بعد میں ان کو واپس کر دوں گا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

اگر کوئی شخص بر سرِ روزگار ہو اور اس کی آمدنی بھی لائقِ گزارا ہو اور شدید مجبوری نہ ہو تو حرام مال بطورِ قرض لینا  درست نہیں ہے، لہٰذا اگر بیٹا تعلیم یافتہ یا صاحبِ ہنر ہے اور محنت کرکے  گزران کرسکتا ہے تو وہ حرام  و مشتبہ مال سے قرض نہ لے،  اگر قرض کی ضرورت ہے تو کسی کے حلال مال سے قرض لے، لیکن  اگر ضرورتِ  شدیدہ ہو  اور  اس کے بغیر گزارا مشکل ہو  اور کسی اور جگہ سے حلال مال سے قرض نہ مل رہا ہو تو  حرام یا مشتبہ مال میں سے کچھ مال بطورِ  قرض اس نیت سے وصول کرے  کہ بعد میں واپس کر دوں گا  تو اس کی  گنجائش  ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں