والد کے انتقال کے بعد وراثت میں4 بیٹیوں ، 1 بیٹے اور والدہ کا حصہ ملا، اولاد کی کم عمری کی وجہ سے سارا حصہ والدہ کے حوالے ہوا، اس میں کچھ رقم جو والد کے دفتر سے ملی ملا کر 1 فلیٹ لے لیا۔ اب فلیٹ اس وقت نہ والدہ کے نام ہے نہ ہی کسی بالغ بہن یا بھائی کے، مگر جب والدہ کے نام ہو جائےتو وہ کسی ایک اولاد جیسے کہ بیٹے کو دے دیں یا پاور دے کہ سب کا اختیار نہ رہے اور بھائی فلیٹ سے نکال دیں یا والدہ ہی ایک بیٹی کوبے دخل کر کے نکال دیں تو یہ والد کی طرف سے ملا حصہ بھی ضبط ہورہا ہے اور حق تلفی بھی ہے۔ ایسے میں زبردستی شادی بھی چاہ رہےہیں۔ اصلاح کریں۔
جو مکان والد کی میراث کی رقم سے خریدا گیا ہو اس میں تمام بیٹوں اور بیٹیوں اپنے شرعی حصے کے بقدر حق دار ہیں، قانونی طور پر وہ مکان کسی ایک کے نام پر کرنے سے باقی سب کا حق اس میں سے ختم نہیں ہوگا، اس لیے کسی بھی اولاد کو اس مکان میں سے بے دخل کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح بالغ لڑکے یا لڑکی پر شادی کے معاملے میں زبردستی کرنا جائز نہیں، والدین ان کی شادی کے معاملے میں ان کی رضامندی کو بھی ملحوظ رکھیں،فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200656
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن