بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد برا سلوک کرے تو بیٹے کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

مجھے ایک عجیب معاملہ درپیش ہے،  وہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب نے دوسری شادی کی ہے اور ہم سب اکٹھے ایک گھر میں رہ رہے ہیں،  میری ماں چوں کہ مرگئی ہے اور میرا اپنا کوئی بھائی بہن بھی نہیں ہے ۔  میری شادی ہوگئی ہے اور میں اور میری بیوی ان ہی کے ساتھ رہ رہے ہیں،  میری  نوکری گھر سے باہر ہے اور میں اپنی تنخواہ کا معقول حصہ اپنے والد صاحب کو ہر ماہ دیتاہوں۔

میری  شادی کو چار سال ہوگئے،  ہر روز کسی نہ کسی چیز پر گھر میں لڑائی ہوتی رہتی ہے، اپنی ماں چوں کہ ہے نہیں اور والد صاحب اپنی بیوی (سوتیلی ماں) کی مانتے  ہیں؛ اس لیے وہ ہمیشہ مجھے طعنے اور گھر سے نکلنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ اتنا بھی کہہ دیتے  ہیں  کہ آپ میرے بیٹے نہیں ہو،  مجھ پر آپ کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی میرے بیوی بچوں کا وہ خیال رکھتے ہیں۔ شادی بھی میں نے اپنے خرچے سے کی ہے،  ایک کوڑی بھی انہوں نے شادی کے لیے نہیں دی ہے ۔

میں اتنی استطاعت رکھتا نہیں کہ اپنا گھر بناؤں اور زمین وغیرہ وہ دیتے نہیں ہیں۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنا گھر بننے تک میں اس کے ساتھ رہ لوں،  لیکن وہ ایسا کرنے نہیں دے رہے۔  لہذا! اب ایسے والد کے بارے میں شریعت کیا کہتی  ہے؟  حدیث شریف ہے کہ ”اللہ کی رضامندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے “۔(جامع ترمذی) اب کیا ایسے والد پر اللہ مجھ سے ناراض ہوگا؟ اور کیا اس پر شریعت میں میرا کوئی حق نہیں ہے؟

دو تین دن سے انہوں نے اتنا پریشان کیا ہوا ہے کہ مجبوراً میں نے اپنی بیوی کو ان سے علیحدہ کیا اور والد کو بتایا کہ آپ کو علیحدہ خرچ بھیجوں گا اور انہیں علیحدہ ۔ لیکن وہ اس پر بھی راضی نہیں ہیں،  کہتے ہیں  کہ آپ نے گھر سے نکلنا ہے! میری اس سلسلے میں راہ نمائی کیجیے۔

جواب

آپ کے والد آپ کے ساتھ جتنا بھی برا سلوک کریں پھر بھی آپ پر لازم ہے کہ آپ ان سے ادب کے ساتھ پیش آئیں، ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بد تمیزی یا بے ادبی کرنا یا اونچی آواز میں ان سے بات کرنا جائز نہیں ہے،  آپ اپنی طرف سے ان کو ناراض کرنے والا کوئی کام نہ کریں، اس کے باوجود اگر وہ ناراض ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے ناراض نہیں ہوں گے۔ 

باقی چوں کہ آپ بالغ ہوچکے ہیں اس لیے اپنے اور اپنی  بیوی ، بچوں کے لیے نان نفقہ اور رہائش کا انتظام کرنا آپ کے ذمہ ہے، جتنا جلد ہوسکے اپنے لیے کسی رہائش کا انتظام کر کے الگ ہوجائیں، چاہے کرائے پر ہی کوئی رہائشی مکان مل جائے، اسی میں منتقل ہوجائیں؛ تاکہ یہ روز روز کے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ لیکن الگ ہونے کے بعد بھی والد سے قطع تعلقی ہرگز نہ کریں، بلکہ آپ مستقل ان کا حال احوال پوچھنے اور ان کی ہر ممکنہ خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھیں اور بچپن سے لے کر اب تک جو احسانات ان کے آپ پر ہیں  ان کو یاد رکھیں، حالیہ رویہ کی وجہ سے گزشتہ احسانات کو نہ بھلائیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں