بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی زندگی میں والد کے سرمایہ سے کاروبار کاحکم


سوال

 میرا  نام سمیع اللہ ہے ، میرے 2 بھائی ہیں، ایک بڑا اور چھوٹا، ہمارے چچوں سے علیحدہ ہونے پر ہمارے والد محترم کو 8 لاکھ ملے 2002 میں ،میں اور میرے بڑے بھائی نے مل کر کاروبار شروع کیا، 2003 میں بڑے بھائی کی شادی ہو گئی اور کچھ عرصے کے بعد مجھے 3 لاکھ روپے کاروبار کے لیے دیے اور کاروبار الگ کر دیا، میں نے چچا کے ساتھ شراکت کرکے کاروبار شروع کیا اس کاروبار کا نفع اور نقصان میں خود دیکھتا تھا، اس میں میرا بڑا بھائی کوئی حصہ نہیں لیتا تھا، اور گھر کا خرچ مشترکہ طور پر ہورہا تھا اور جہاں کاروبار ایک ہی دوکان پر علیحدہ علیحدہ کاروبار کر رہے تھے 2009 میں  میرے بڑا بھائی نے اپنا کاروبار ختم کر کے دوسری جگہ پر کاروبار شروع کرلیا، جب کہ  میں اپناکاروبار چلا تا رہا اور گھریلو اخراجات میں بھی والد صاحب کے کہنے پر حصہ دیتے رہتا تھا، 2009 میں میری شادی ہوئی  جس میں اپنے کمرے کا فرنیچر رنگ روغن اور 2 تولہ سونا بھی میں نے خود بنایا، 2010 میں میرے بڑے بھائی کو کاروبار میں نقصان ہو گیا، مجھ سے مدد کے طور پر پیسے مانگے تو والد صاحب کے کہنے پر 250000 روپے دیے، اس دوران میں نے اپنا کاروباری منافع کی مدد سے پلاٹ اور دوکانیں بھی خریدیں، جس کی خریداری میں میرے بڑے بھائی نے کچھ بھی تعاون نہیں کیا، والد صاحب کے کہنے پر میں نے ایک دوکان کا کرایہ بڑے بھائی کو دینا شروع کیا، اور ایک کا خود لے رہا تھا، 2014 میں نے ایک اور دوکان خریدی اور اس میں چھوٹے بھائی کو کاروبار شروع کر دیا، اور میرے دونوں بھائیوں کا کاروبار علیحدہ علیحدہ تھا، لیکن وہ گھر کے اخراجات میں میرا ہاتھ نہیں بٹاتے تھے، 2015 میں چھوٹے بھائی کی شادی ھو گئی، اس کی شادی میں بڑے بھائی نے میرے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیاوالد صاحب کے کہنے کے باوجود، اب کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام خاندانی پس منظر ہمارے روایتی مشترکہ خاندانی نظام کے تحت، ہمارے دادا جان اور ان کے بھائی کا کاروبار علیحدہ علیحدہ تھا، لیکن آمدنی اخراجات کے ساتھ ساتھ تمام معاملات شادی بیاہ خوشی غمی خرید و فروخت عید بقر عید وغیرہ مشترک تھے، کاروبار برابر تقسیم، وہی اب میرے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں تو والد صاحب کی جو جائیداد ہے اس میں ایک گھر اور 1 دوکان ہے، اب مجھے شرعی فتوی چاہیے کہ جو جائیداد میں نے خود بنائی ہے اپنے کاروبار سے جس میں میرے دونوں بھائیوں کی کوئی محنت نہیں ہے، کیا میں وہ اپنے بھائیوں میں تقسیم کروں گا؟ یہ رقم ہمارے والد محترم نے ہمیں بطورِ تملیک  دی نہ مضاربت اور نہ قرض اور نہ امانت دی۔

 مرحوم والد کے ورثاء میں ایک بیوہ، والدہ، 3بیٹے اور2بیٹیاں  حیات ہیں، مرحوم کے والد اور دادا کا انتقال ان کی زندگی میں ہو گیا تھا۔

جواب

سائل کے والد نے   جو رقم سائل کو دی  تھی وہ سرمایہ اگر  مکمل ملکیت کے ساتھ دیا تھا تو سائل اس کا مالک ہے ، والدِ مرحوم کی میراث میں اس کو  شامل نہیں کیا جائے گا ۔

لیکن اگر صورت یہ ہو کہ والد نے محض کاروبار کی ترقی اور حصولِ آمدن کے ذرائع بڑھانے کے لیے بیٹے کو رقم دی تو ایسی صورت میں اصل سرمایہ بمع نفع  اور نفع سے خریدی ہوئی  جائیداد  والد کا ترکہ شمار ہوگی ،  اور شرعی تقسیم کے حساب سے ورثاء اس کے مالک ہوں گے۔

تقسیمِ  میراث اس طرح ہوگی کہ  والدِ مرحوم کی تجہیز وتکفین اور قرضہ جات کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی  جائز وصیت ہوتو ایک تہائی میں سے نافذ کرکے  بقیہ رقم کو 192 حصوں میں تقسیم کرکے 24 حصے یعنی   12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو ، 32 حصے یعنی 16.6 فیصد مرحوم کی والدہ کو ، 34 ، 34 حصے یعنی 17.7 فیصد ہرایک بیٹے کو  اور 17 ،17 حصے  یعنی 8.8فیصد ہر ایک بیٹی کو  ملیں گے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں