بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی زندگی میں بیٹے کی تعلیم پر آنے والے اخراجات ترکہ کی تقسیم کے وقت بیٹے کے حصہ سے منہا کرنے کا حکم، ذاتی پیسوں سے تعمیر کیے گئے مکان میں والد کے دیگر ورثا کا حق


سوال

1- والد کی حیات میں بیٹےکے بیرونِ شہر تعلیم حاصل کرنے پر جو خرچ آیا کیا وہ اس کے ترکے میں سے شامل کر کے تقسیم ہوگا جب کہ پہلے والد صاحب کا انتقال ہوا، اس کے 30سال بعد بیٹے کا انتقال ہوا۔ اب پوتا اپنے والد کا حصہ طلب کرتا ہے تو پنچ حضرات نے جو پوتے کے والد مرحوم کے بھائیوں کی طرف سے تھے ایسا مطالبہ کر دیا گیا ہے، کیا پنچ رہتے ہوئے ایسا سوال کرنا چاہیے اور کیا اسلامی شریعت قانون کی روشنی میں اخراجات کاٹ کر پوتے کو حصہ دیا جائے گا؟

2- والد صاحب نے دادا کے انتقال کے بعد  اپنی ذاتی محنت اور آمدنی سے ایک مکان تعمیر کیا وہ بھی بنا مشترکہ مال تو  کیا اب دادا کی املاک تقسیم کے وقت پنچ حضرات ارو مرحوم کے سگے بھائی اور دیگر مشترکہ میراث کے وارثین اس بھائی کے مکان کو مشترکہ میراث میں شامل کرنے کے لیے بضد ہے، کیا پنچ حضرات اور مشترکہ میراث کے شرکاء کا مطالبہ شرعی حیثیت سے جائز مانا جائے گا؟ کیا وہ مکان مشترکہ میراث میں شامل کیا جائے گا ؟

3- دادا کے انتقال کے بعد سے میرے والد اپنی محنت کی کمائی سے اپنی بیوی اور بچوں کا  گزر بسر اور دیگر اخراجات کرتے تھے، صرف دادا کے چھوڑے ہوئے مکان کے ایک کمرے میں رہتے تھے، جو مشترکہ کاروبار تھا اس کی آمدنی میں سے کچھ بھی نہ لیتے تھے، جب کہ ان کے سگے بھائیوں سمیت ان کے بچوں کی پرورش، تعلیمی اخراجات، شادی بیاہ اور  دینی فرائض مشترکہ میراث کے کاروبار سے پورے ہوتے تھے، اب کیا  دادا کی وراثت کی تقسیم کے وقت مشترکہ کاروبار کی آمدنی سے جو سب وارثین نے اپنی اور بیوی بچوں پر خرچ کیا ہے، کیا شریک وارثوں کے حصے میں سے کاٹا جائے گا یا نہیں؟  سب کے اخراجات کے حساب سے پوتا والد کا حصہ طلب کر تا ہے، کیا ایسا کرنا پوتے کےلیے صحیح ہے، شرعی طور سے طلب کر سکتا ہے؟ مشترکہ میراث میں جو کاروبار تھا اس کی آمدنی سے جو کچھ اضافہ ہوا ہے اس میں بھی پوتا شریک مانا جائےگا کیا ؟

جواب

1) والد کی زندگی میں بیٹے کی تعلیم پر جو خرچہ خود والد نے کیا تھا وہ والد کی طرف سے تبرع تھا، والد کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم کے وقت اس خرچے کو بیٹے کے حصہ سے منہا کرنا جائز نہیں ہے۔

2) آپ کے والد نے اپنی ذاتی کمائی سے جو مکان تعمیر کیا تھا وہ خالص ان کی ملکیت تھا، اس مکان میں دیگر بھائیوں یا دادا کے دیگر ورثا کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، آپ کے والد مرحوم کے انتقال کے بعد وہ صرف آپ کے والد مرحوم کے شرعی ورثا (بیوہ ، بچوں اور والدہ اگر زندہ ہوں) کے درمیان تقسیم ہوگا۔

3)آپ کے دادا مرحوم نے ترکہ میں جو کاروبار چھوڑا تھا، اس کی آمدنی پر آپ کے والد سمیت تمام ورثاء  کا میراث کے ضابطۂ شرعی کے موافق حق و حصہ تھا، دادا کی وفات سے لے کر اب تک جتنی آمدنی ہوئی ہے اس کا حساب لگاکر اس میں آپ کے والد مرحوم کا جو حصہ میراث کے ضابطہ شرعی کے موافق بنتا ہو والد کی زندگی میں انہیں اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے ورثاء کو دینا ضروری ہے۔ اسی طرح دادا کے متروکہ کاروبار میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں بھی آپ کے والد مرحوم اور ان کی وفات کے بعد ان کے شرعی ورثاء (مذکورہ صورت میں ان ورثاء میں پوتا بھی داخل ہے)  کا حق ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں