بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا غیر شادی شدہ بیٹی کو زندگی میں دیگر اولاد سے زیادہ حصہ دینے کا حکم


سوال

میں ایک غیر شادی شدہ عورت ہوں، عمر 66 سال، والدین کا انتقال ہو چکا ہے، میرے دو بھائی اور اور تین بہنیں الحمدللہ حیات ہیں اور سب شادی شدہ ہیں اور مالی اعتبار سے الحمدللہ مستحکم بھی ہیں، والد نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائے داد  کو تقسیم کر کے بطورِ ہدیہ سب بھائی بہنوں کے حوالے کر دیا تھا، والد کی جائے داد  کا ایک بڑا حصہ (مکان اور کرائے پر دی ہوئی ایک کاروباری ملکیت) میرے نام کردیا گیا، گوکہ یہ تقسیم مساوی نہیں تھی، لیکن میرے بھائی بہنوں نے کوئی اعتراض اس وقت بھی نہیں کیا، اور اب بھی نہیں  کرتے، والد کے انتقال کو 8-9 سال ہو چکے ہیں جو گھر میرے والد نے مجھے دیا تھا اس میں میری رہائش ہے، کاروباری ملکیت کے کرائے سے میری گزر اوقات ہوتی ہے، میری آمدن کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ:

1. کیا اس قسم کی تقسیم سے میرے والد پر گناہ لازم آتا ہے؟

 2. اگر یہ تقسیم شرعاً غلط اور باعثِ گناہ تھی تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کہ والد صاحب کی طرف سے کفارہ ادا ہو جائے اور والد صاحب کے سر سے یہ بوجھ اتر جائے۔

جواب

واضح رہے کہ  والد کا زندگی میں اپنی جائے داد  اپنی  اولاد کے درمیان تقسیم کرنا ہبہ ہے، اور ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، لہٰذا جو جائے داد  والد نے اپنی اولاد میں سے جس کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائے داد  اس کی ملکیت میں آجائے گی، اور والد کے انتقال کے بعد وہ والد کا ترکہ شمار نہیں ہوگی، لیکن جو جائے داد والد نے صرف زبانی طور پر ہبہ  کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ بدستور والد کی ملکیت میں رہے گی اور والد کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔

لہٰذا اگر کوئی والد زندگی میں اپنی جائے داد  اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرکے ان کو ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے  شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری کرے، بلاوجہ کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے (یعنی بیٹیوں کو کم دینا یا نہ دینا درست نہیں ہے)،  اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دے یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے یا زیادہ ضرورت مند و حاجت مند ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔

مذکورہ بالا تمہیدی تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ  اگر آپ کے والدِ مرحوم  نے اپنی زندگی میں آپ کو بلا وجہ دیگر بہن بھائیوں کے مقابلہ میں  زیادہ حصہ دے کر اپنی جائے داد  کی غیر منصفانہ تقسیم کی تو  دیگر اولاد کی حق تلفی  اور دل آزاری کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوئے تھے، چنانچہ  اگر آپ اپنے والد کو اس گناہ کے وبال سے نکالنے کے لیے دیگر بہن بھائیوں کو کسی بھی طرح (مثلاً اس جائے داد  میں سے حصہ دے کر) اس بات پر راضی کرلیں کہ وہ اپنے والد کو معاف کردیں  تو امید ہے کہ ان کے معاف کرنے کی وجہ سے آپ کے والد مرحوم اس گناہ کے وبال سے آزاد ہو جائیں گے، یا آپ کے دیگر بہن بھائی مکمل خوش دلی کے ساتھ  اپنے والد کو بلاعوض ہی معاف کردیں تو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ آپ کے والد کا مواخذہ نہیں کریں گے۔ بہرحال اس صورت میں جائے داد  میں سے دیگر بہن بھائیوں کو حصہ دینا آپ پر لازم نہیں ہے۔ 

لیکن اگر آپ کے والدِ مرحوم نے اپنی زندگی میں آپ کو  شادی شدہ نہ ہونے اور کفالت کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دیگر بہن بھائیوں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ حصہ دے  دیا تھا ( دیگر اولاد کو محروم کرنے کی نیت نہ تھی) تو اس طرح کرنے سے وہ گناہ گار نہیں ہوئے تھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):

"ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

فتاویٰ تاتارخانیهمیں ہے:

"و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولاده من کان متأدباً". (ج: ۳ ؍ ۴۶۲، ط:زکریا هند)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690):

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں