بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا زندگی میں ساری جائیداد بیٹوں کو دینے اور بیٹیوں کو محروم کرنے کاحکم


سوال

 اگر کوئی والد اپنی زندگی میں جائے داد اس طرح تقسیم کرے  کہ بیٹیوں کو کوئی حصہ نہ دے تو

(۱) کیا یہ والد اپنی جائے داد  اس طرح تقسیم کرنے سے گناہ گار ہوگا؟

(۲) کیا ان بھائیوں کے لیے جن کوں بہنوں کا حصہ دیا جا رہا ہے،یہ حصہ قبول کرنا جائز ہے؟

(۳) اگر تقسیم کے وقت کوئی نابالغ تھا اور ابھی بالغ ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

اگر کوئی والد زندگی میں اپنی جائے داد  اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرکے ان کو ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری کرے، بلاوجہ کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے(یعنی بیٹیوں کو  کم دینا یا نہ دینا درست نہیں ہے)  اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو  کم دے گا، یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ والد کا ساری جائے داد  بیٹوں میں تقسیم کردینا اور بیٹیوں کو محروم کردینا ناانصافی اور حق تلفی ہے اور ایسی غیر منصفانہ تقسیم کرنے سے والد گناہ گار ہوگا،  اگر والد زندگی میں ساری جائے داد  صرف اپنے بیٹوں کو بطور ہبہ مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دے تو بیٹوں کے لیے اسے قبول کرنا جائز تو ہے اور قبول کرنے سے  بیٹے اس جائے داد  کے مالک بھی ہو جائیں گے، اور والد کے انتقال کے بعد ان کے ذمہ لازم نہیں ہوگا کہ وہ اس جائے داد  میں سے بطورِ ترکہ بیٹیوں کو حصہ دیں، لیکن چوں کہ والد بیٹیوں کو محروم کرنے، ان کی حق تلفی  اور دل آزاری کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوا؛ اس لیے اگر وہ اپنے والد کو اس گناہ کے وبال سے نکالنے کے لیے بیٹیوں (یعنی اپنی بہنوں ) کو اس جائے داد  میں سے حصہ دے کر اس بات پر راضی کرلیں کہ وہ اپنے والد کو معاف کردیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔باقی تقسیم کے وقت کسی کے بالغ یا نابالغ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، جو تقسیم کے وقت نابالغ تھا اس کی طرف سے والد کا قبضہ کافی ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):

"ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولاده من کان متأدباً". (ج: ۳ ؍ ۴۶۲، ط:زکریا هند)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690):

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں