بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بیٹوں کی بنسبت بیٹیوں کم حصہ دینے کی وجہ سے بیٹے کا اپنی بہنوں کو عمرہ کرانا


سوال

 والد نے جائے داد  میں سے اپنے بیٹوں کو زمین میں حصہ دے دیا ہو اور بیٹیوں کو 5000 روپے فی بیٹی دیا ہو، بعد میں ایک بھائی کو خیال آتاہے کہ بہنوں کو صحیح طریقے سےحق نہیں ملا ہے،  میں ان سب بہنوں کو عمرہ کراتا ہوں، پوچھنا یہ تھا کہ اس طرح عمرہ ادا ہوگا یا نہیں اور اس سے بہنوں کا حق ادا ہوجائے گا؟ سات بہنیں ہیں، ہر ایک بہن کے عمرے کا ایک لاکھ بیس ہزار خرچہ آئے گا؟

جواب

اگر کوئی والد زندگی میں اپنی جائے داد  اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرکے ان کو ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری کرے، بلاوجہ کسی کو کم، کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے (یعنی بیٹیوں کو  کم دینا یا نہ دینا درست نہیں ہے)  اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو  کم دے گا، یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں والد نے اگر بلاوجہ اپنی بیٹیوں کو بہت کم رقم دی ہو اور ان کو جائیداد سے محروم کیا ہو  اور اپنی ساری جائیداد بیٹوں کو دے دی ہو تو یہ  ناانصافی  ہے اور ایسی غیر منصفانہ تقسیم کرنے سے والد گناہ گار ہوگا،  اگر والد زندگی میں ساری جائے داد  صرف اپنے بیٹوں کو بطور ہبہ مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دے تو اس کو  قبول کرنے سے  بیٹے اس جائے داد  کے مالک بن جائیں گے، اور والد کے انتقال کے بعد ان کے ذمے  لازم نہیں ہوگا کہ وہ اس جائے داد  میں سے بطورِ ترکہ بیٹیوں کو حصہ دیں، لیکن چوں کہ والد بیٹیوں کو محروم کرنے، ان کی حق تلفی  اور دل آزاری کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوا، اس لیے اگر بیٹے اپنے والد کو اس گناہ کے وبال سے نکالنے کے لیے بیٹیوں (یعنی اپنی بہنوں ) کو اس جائے داد  میں سے حصہ دے دیں  یا عمرہ وغیرہ کرواکر کر اس بات پر راضی کرلیں کہ وہ اپنے والد کو معاف کردیں تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ اور بھائیوں کے اس طرح عمرہ کرانے سے عمرہ ادا ہوجائے گا۔

''و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية ... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»."

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):

"ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

وفیہ ایضا (5/ 690):

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں