بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا بہو کے مہر کا ضامن بننا


سوال

ایک شخص کے تین بیٹے ہیں، پہلے دو بیٹوں کی شادی کرتا ہے ،جس میں ایک بیٹے کا سُسر 10 تولہ سونا بطور مہرکی مانگ کرتا ہے ، لڑکے کا والد کہتا ہے کہ ٹھیک ہے ،میرے پاس 10تولہ سونے کے کنگن ہیں، جب شادی ہوگئی تو دونوں لڑکیوں کے ساتھ گھر سے 5تولہ سونا آیا تھا، سُسر نے بہووں سے کہا کے تم لوگ یہ سونا مجھے دے دو ،میرے پاس10 تولہ سونے کے کنگن پڑے ہیں تو یہ ٹوٹل  15 تولہ سونا ہوگیا ،لڑکے کے والد نے تینوں بیٹوں سے کہا کہ میں اس سے زمین خرید کر تینوں بیٹوں کے نام کر رہا ہوں اور یہ بھی کہا کہ جب تمہارے چھوٹے بھائی کی شادی ہو جا ئے گی تواس کے پا س جو سونا ہوگا اُسے بیچ کر اس پیسوں سے زمین کے چاروں اطراف سے بنیادیں کھو دیں گے،اب لڑکے کا والد مر چکا ہے اوراُس لڑکی کا والد بھی مر چکا ہے جس نے 10تولہ سونے کی مانگ کی تھی ، اب یہ تیسرا بھائی دونوں بھائیوں کو سونا نہیں دے رہا  اور  زمین پہلے  سے تینوں بھا ئیوں کے نام پر ہے، بڑا بھائی کہہ رہا ہے کہ بس ٹھیک ہے، جو ہوا ہے بس ٹھیک ہوا ہے، ایک بھائی نہیں مان رہا ، جس کے سُسر نے بطور مہر 10تولہ سونا مانگا تھا، وہ کہتا ہے کہ یا تو چھوٹا بھائی زمین کے چاروں اطراف سے بنیادیں کھودے یا میری بیوی کا مہر دے دے  جس پر میرے والد نے زمین خریدی ہےاور اس لڑکے کی بیوی بھی یہی  کہہ رہی ہیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ   میں  لڑکے  کے والد نے جو دس تولہ سونا بطور  مہر اپنی  بہو کو دینے کی ذمہ داری لی تھی تو اس کی ادائیگی والد کے ذمہ لازم تھی، جب  اس نے اپنی دونوں بہووں سے پانچ تولہ سونا  لے کر دس تولہ سونا اپنی طرف سے ملا کر پندرہ تولہ سونےسے اپنے تینوں بیٹوں کے نام پر پلاٹ خریدا ہےتو  یہ پلا ٹ بہووں کا نہیں، کیوں کہ یہ ان کےنام نہیں خریدا گیا، نیز  یہ پلاٹ بیٹوں کا بھی نہیں ہوا، کیوں کہ  یہ گفٹ  ہے اور گفٹ میں ضروری ہے کہ ہر ایک کو اس کا حصہ الگ کرکے مالکانہ اختیارات کے ساتھ حوالہ کیا جائے، لہذا یہ پلاٹ بدستور والد کی ملکیت ہے، البتہ بہووں کا  پندرہ تولہ سونا والد پر  قرض ہے، میراث  کی تقسیم سے پہلے والد  کی جائیداد میں سے یہ رقم الگ کرکے دونوں بہووں کو  ان کے حصے کے بقدر دی جائے، لہذا جس بھائی کی بیوی کا والد نے مہر ذمہ لیا تھا اس کا یہ مطالبہ درست ہے کہ اس کی بیوی کا مہر جس پر والد نے زمین خریدی ہے  ادا  کی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 140):

"(قوله: وصح ضمان الولي مهرها) أي سواء ولي الزوج أو الزوجة صغيرين كانا أو كبيرين، أما ضمان ولي الكبير منهما فظاهر لأنه كالأجنبي. ثم إن كان بأمره رجع وإلا لا."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 143):

"[فرع] في الفيض: ولو أعطى ضيعة بمهر امرأة ابنه ولم تقبضها حتى مات الأب فباعتها المرأة لم يصح إلا إذا ضمن الأب المهر ثم أعطى الضيعة به فحينئذ لا حاجة إلى القبض.

ولو كان الابن كبيرا فهو متبرع لأنه لا يملك الأداء بلا أمره."

الفتاوى الهندية  (7 / 324):

"ولو كان الابن كبيرا وضمن الأب عنه بغير أمره في صحته ثم مات الأب وأخذت المرأة من تركته لم ترجع ورثته بالإجماع."

کفایت المفتی میں ہے:

"اگر والد نے مہر کی ضمانت کی ہو تو والد پر ادائیگی لازم ہے، ورنہ بیٹے پر ادا کرنا لازم ہوگا۔"

(کفایت المفتی 5/ 122 ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں