بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا اپنی زندگی میں جائیداد بیٹوں میں تقسیم کرنا اور بیٹی کو محروم رکھنا


سوال

میری عمر 44 سال ہے، میری شادی کو بیس سال ہوچکے ہیں،  میرے دو بچے بھی ہیں، شادی کے شروع سے معاشی مشکلات کا سامنا رہا ہے، میری ماں کا انتقال 2007 میں ہوگیا تھا، ان کی وفات کے بعد میرے والد نے دوسری شادی کرلی تھی، میرے علاوہ میرے دو بھائی بھی ہیں، جب کہ دوسری ماں سے والد کے مزید دو بیٹے بھی ہیں، کچھ سال پہلے ابو نے اپنی آدھی پراپرٹی فروخت کرکے میرے دو سگے بھائیوں کو ان کا حصہ دے دیا تھا اور اپنے لیے بھی رکھ لیا تھا، اور یہ سب کچھ مجھ سے چھپ کر کیا تھا، اور دو سال پہلے ابو نے بقیہ پراپرٹی بھی فروخت کرکے آپس میں تقسیم کرلی  اور یہ بھی مجھ سے چھپ کر کیا ہے، جب مجھے معلوم ہوا تو بھائیوں سے اس پر میری بحث ہوگئی، وہ کہتے ہیں کہ ان پراپرٹیز پر میرا حصہ نہیں بنتا؛ کیوں کہ ابو نے یہ سب ان کے نام پر خریدی تھیں، ؛ کیوں کہ میرے والد کوئی بھی پراپرٹی اپنے نام پر نہیں لیتے تھے، خاندان کے ہی کسی فرد کے نام پر لیتے تھے، مگر انہوں نے کوئی بھی پراپرٹی میرے نام نہیں لی ہے۔ اب میرے بھائی کہتے ہیں کہ میرا حصہ نہیں بنتا؛ کیوں کہ پراپرٹی ان کے نام پر لی گئی تھی نہ کہ میرے، جب کہ ابو کہتے ہیں کہ وراثت باپ کے مرنے پرتقسیم ہوتی ہے، ابھی میں زندہ ہوں، پھر انہوں نے بھائیوں میں کیوں تقسیم کی؟

کیا اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ اس ظلم سے روک سکے؟

کیا بیٹی کو حق نہیں ہے کہ اگر باپ اپنی مرضی سے سب کچھ بیٹوں میں تقسیم کردے؟

کیا میرا کوئی حصہ نہیں بنتا باپ کی پراپرٹی میں؟

جواب

زندگی میں والد یا والدہ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتے ہیں اس کی حیثیت وراثت کی نہیں ہوتی،اس لیے کہ وراثت کی تقسیم مورث  کی موت پر موقوف ہوتی ہے، بلکہ اس کی شرعی حیثیت ہبہ کی ہوتی ہے، اور ہبہ کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ نے والد ین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں برابری کریں، کسی معقول شرعی عذر کے بغیر کسی کو کم اور کسی کو زیادہ، یا کسی کو دینے اور کسی کو محروم رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے والد پر لازم ہے کہ وہ اپنی تمام اولاد (خواہ وہ پہلی بیوی سے ہوں یا دوسری بیوی سے) میں برابری کرے، جو کچھ اپنے پہلی بیوی کے بیٹوں کو دیا ہے اتنا ہی اپنی بیٹی اور دوسری بیوی کے بطن سے ہونے والے دونوں بیٹوں کو دے.

رہی بات پراپرٹی بیٹوں کے نام پر ہونے کی تو اگر والد نے صرف کاغذی کاروائی کی حد تک اور ٹیکس و دیگر قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کے نام پر لی تھی( جیساکہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے)  تو محض کاغذات میں نام پر ہونے سے وہ ان بیٹوں کی شمار نہیں ہوں گی، بلکہ ان پر بدستور والد کی ہی ملکیت ثابت رہے گی، اب غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر اگرچہ بیٹوں کو قبضہ دے کر مالک بنادیا گیا ہے، لیکن ازروئے حدیث شریف اس تقسیم کو منسوخ کرکے منصفانہ طور پر ہبہ کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أَقُولُ: حَاصِلُ مَا ذَكَرَهُ فِي الرِّسَالَةِ الْمَذْكُورَةِ أَنَّهُ وَرَدَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَوُّوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ فِي الْعَطِيَّةِ، وَلَوْ كُنْت مُؤْثِرًا أَحَدًا لَآثَرْت النِّسَاءَ عَلَى الرِّجَالِ». رَوَاهُ سَعِيدٌ فِي سُنَنِهِ. وَفِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ: «اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ». فَالْعَدْلُ مِنْ حُقُوقِ الْأَوْلَادِ فِي الْعَطَايَا، وَالْوَقْفُ عَطِيَّةٌ، فَيُسَوِّي بَيْنَ الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى؛ لِأَنَّهُمْ فَسَّرُوا الْعَدْلَ فِي الْأَوْلَادِ بِالتَّسْوِيَةِ فِي الْعَطَايَا حَالَ الْحَيَاةِ. وَفِي الْخَانِيَّةِ: وَلَوْ وَهَبَ شَيْئًا لِأَوْلَادِهِ فِي الصِّحَّةِ، وَأَرَادَ تَفْضِيلَ الْبَعْضِ عَلَى الْبَعْضِ رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا كَانَ التَّفْضِيلُ لِزِيَادَةِ فَضْلٍ فِي الدِّينِ، وَإِنْ كَانُوا سَوَاءً يُكْرَهُ. وَرَوَى الْمُعَلَّى عَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا لَمْ يَقْصِدْ الْإِضْرَارَ، وَإِلَّا سَوَّى بَيْنَهُمْ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُعْطِي لِلذَّكَرِ ضِعْفَ الْأُنْثَى، وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة مَعْزِيًّا إلَى تَتِمَّةِ الْفَتَاوَى قَالَ: ذَكَرَ فِي الِاسْتِحْسَانِ فِي كِتَابِ الْوَقْفِ: وَيَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْدِلَ بَيْنَ أَوْلَادِهِ فِي الْعَطَايَا. وَالْعَدْلُ فِي ذَلِكَ التَّسْوِيَةُ بَيْنَهُمْ فِي قَوْلِ أَبِي يُوسُفَ، وَقَدْ أَخَذَ أَبُو يُوسُفَ حُكْمَ وُجُوبِ التَّسْوِيَةِ مِنْ الْحَدِيثِ، وَتَبِعَهُ أَعْيَانُ الْمُجْتَهِدِينَ، وَأَوْجَبُوا التَّسْوِيَةَ بَيْنَهُمْ وَقَالُوا: يَكُونُ آثِمًا فِي التَّخْصِيصِ وَفِي التَّفْضِيلِ، وَلَيْسَ عِنْدَ الْمُحَقِّقِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَذْهَبِ فَرِيضَةٌ شَرْعِيَّةٌ فِي بَابِ الْوَقْفِ إلَّا هَذِهِ بِمُوجِبِ الْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ، وَالظَّاهِرُ مِنْ حَالِ الْمُسْلِمِ اجْتِنَابُ الْمَكْرُوهِ، فَلَاتَنْصَرِفُ الْفَرِيضَةُ الشَّرْعِيَّةُ فِي بَابِ الْوَقْفِ إلَّا إلَى التَّسْوِيَةِ، وَالْعُرْفُ لَايُعَارِضُ النَّصَّ. هَذَا خُلَاصَةُ مَا فِي هَذِهِ الرِّسَالَةِ، وَذَكَرَ فِيهَا أَنَّهُ أَفْتَى بِذَلِكَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ مُحَمَّدُ الْحِجَازِيُّ الشَّافِعِيُّ وَالشَّيْخُ سَالِمُ السَّنْهُورِيُّ الْمَالِكِيُّ وَالْقَاضِي تَاجُ الدِّينِ الْحَنَفِيُّ وَغَيْرُهُمْ اهـ". ( مَطْلَبٌ مَتَى ذَكَرَ الْوَاقِفُ شَرْطَيْنِ مُتَعَارِضَيْنِ يُعْمَلُ بِالْمُتَأَخِّرِ، ٤ / ٤٤٤)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں