بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدِ مرحوم نے حج کے لیے رقم رکھوائی تھی، انتقال کے بعد کیا حکم ہے؟


سوال

میرے والد صاحب جن کا اب انتقال ہوچکا ہے، وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے،  ان کا علاج میں نے اپنے خرچہ سے کرایا تھا، انہوں نے اپنی زندگی میں میرے  پاس کچھ رقم رکھوائی تھی جس میں 140000 روپے ایک تھے اور 284000 ان کے حج کی رقم تھی،  مذکورہ دونوں رقموں میں سے 140000 روپے والی رقم کے بارے میں بھائی کی بیوی کے سامنے یہ کہا تھا کہ یہ رقم تم رکھ لو اور میرے علاج پر لگا دو، مگر میں بضد تھا کہ آپ کا پیسہ آپ کا ہے، میں وہ علاج پر نہیں لگاؤں گا، بلکہ اپنی رقم سے علاج کر واؤں گا،  والد کے انتقال کے بعد میں نے 140000 والی رقم اپنے دو بھائیوں کو بتاکر ان سے رضامندی لے کر دو گواہوں کی موجودگی میں ایک مدرسہ کی تعمیر میں لگا دی ہے،  ہم تین بھائی ہی والد مرحوم کے وارث ہیں، ہماری  والدہ کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔

میرے پاس والد صاحب کی 284000   رقم رکھی ہوئی ہے، جو حج قرعہ اندازی میں نام نہ آنے کی وجہ سے والد صاحب نے اگلے سال حج کرنے کی نیت سے میرے پاس رکھوائے تھے، میں نے سنا ہے کہ اس رقم سے ان کی طرف سے حج کرانا ہوگا، تو کیا میں اس میں رقم شامل کرکے حج بدل کر سکتا ہوں؟

کل کو اگر میرے بھائی اس رقم سے حصہ مانگیں تو کیا کرنا ہوگا، جب کہ میں اس رقم کے بارے میں بھائیوں کو آگاہ کر چکا ہوں کہ میرا ارادہ والد کی طرف سے حج کرانے کا ہے، اور یہ بات بھی دو گواہوں کے سامنے کی ہے، اور بھائیوں نے رضامندی ظاہر کی ہے۔

دوسری طرف میرے والد نے بھائی کے ساتھ ایک جوائنٹ اکاؤنٹ میں کچھ رقم سیونگ سرٹیفیکیٹ کی صورت میں رکھوائی تھی، جسے میرے بھائی نے میرے علم میں لائے بغیر استعمال کرلیا ہے،  اور جو پرائز بانڈز تھے وہ بھی   علم میں لائے بغیر  اپنے پاس رکھ  لیے،  اگرچہ مجھے یہ چیزیں نہیں چاہییں، تاہم اسلامک رول  کے مطابق معلوم کرنا ضروری ہے،  بہر حال میرے پاس موجود حج والی رقم کے حوالے سے راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں والدِ مرحوم نے اپنے ترکہ میں جو کچھ چھوڑا ہے، اس پر ان کے تینوں بیٹوں کا برابر حق ہے، کسی ایک بیٹے کو ان کی متروکہ چیزیں، نقدی وغیرہ رکھنے کا حق نہیں، البتہ سیونگ سرٹیفیکیٹ اور برائز بانڈز چوں کہ سود پر مشتمل ہوتے ہیں، لہذا اصل رقم مرحوم کے ورثاء میں تقسیم کی جائے گی، جب کہ زائد رقم ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ہوگی۔

 رہی بات آپ کے پاس موجود حج کے لیے مختص کردہ رقم 284000 ، تو اگر والد مرحوم نے اپنی طرف سے حج کی وصیت کی ہے اور وہ رقم مرحوم کے کل ترکہ (بشمول ایک لاکھ چالیس ہزار اور دیگر رقم سب ملاکر) کا ایک تہائی بنتی  ہو تو  اس صورت میں اس رقم سے حجِ بدل کیا جائے گا، اگر وہ رقم مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ ہو تو  زائد رقم کے حوالے سے باقی ورثاء کی اجازت لینی پڑی گی۔

مسئولہ صورت میں جیساکہ سائل نے لکھا ہے کہ گواہوں کی موجودگی میں بھائیوں سے رضامندی لے لی گئی ہے، تو ایسی صورت میں مذکورہ کل رقم والد کے ترکہ سے منہا کرکے باقی ماندہ ترکہ تقسیم کیا جائے گا، اور اس رقم سے حجِ بدل کیا جائے گا، سائل خود بھی کر سکتا ہے اور کسی اور کو بھی بھیج سکتا ہے، بہتر ہے کہ ایسا شخص حجِ بدل کے لیے جائے جو  اپنا فرض حج ادا کرچکا ہو۔ نیز 284000 سائل کے جائے اقامت سے حج کے لیے ناکافی ہوں تو اس صورت میں سائل پر مزید رقم شامل کرنا شرعاً ضروری نہیں، بلکہ جس جگہ سے مذکورہ رقم حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اس مقام سے حجِ بدل کرایا جا سکتا ہے، تاہم اگر سائل اپنی خوشی سے مزید رقم شامل کرنا چاہیے تو کرسکتا ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں