بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد فحش گناہ میں ملوث ہو تو قطع تعلق کا حکم


سوال

ہمارے والد صاحب کی عمر 73 سال ہے اور ان کے پاس سمارٹ فون اور انٹرنٹ آگیا ہے،  فیس بک اور واٹس ایپ کا اکاؤنٹ بھی ہے ان کے پاس۔ کسی نے ان سے ایک اجنبی نمبر سے یہ کہہ کر رابطہ کیا کہ وہ ایک 35 سال کی خاتون ہے جس کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس خاتون نے والد صاحب کو شادی کی امید دلائی۔ اور اس امید پر والد نے ان کو بغیر دیکھے اور بغیر ان کی آواز سنے ان سے اپنی ذاتی زندگی شئیر کرنا شروع کر دی۔ اور جنسی باتیں بھی شروع کر دیں حتی کہ اپنے عضو تناسل کی تصویر بھی اس کو بھیج دی۔ والدہ کو پتا چل گیا تو قیامت برپا ہوگئی۔ بہت غصے ہوئیں، گھر چھوڑ کر اولاد کے پاس چلی گئیں۔ سب بچوں نے والد صاحب سے ناراضی کا اظہار کیا۔

اس پر بجائے شرمندہ ہونے کے والد صاحب نے گناہ کا عذر بیان کرنا شروع کیا، اولاد نے یہ سوچ کر کہ شاید اس بڑھاپے میں ان کے لیے بات سمجھنا مشکل ہے، اس لیے اس نمبر کے پیچھے تحقیق شروع کردی اور پتا یہ چلا کہ وہ در حقیقت ایک مرد تھا جو والد صاحب کو دھوکا دے رہا تھا اور والد صاحب سے پیسے اینٹھنا چاہتا تھا، چناں چہ والد صاحب پچاس ہزار پاکستانی روپے اس پر خرچ بھی کر چکے تھے۔ لیکن والد صاحب مسلسل کہتے رہے کہ وہ عورت ہی ہے۔

بہرحال والد صاحب نے توبہ کی اور ہم نے والدہ کو سمجھا کر والد صاحب کے پاس دوبارہ بھیج دیا اور صلح ہوگئی۔ اب گزشتہ ایک سال میں یہ سب کچھ والد صاحب نے دو بار اور کیا ہے،  اور اب سال پورا ہونے پر چوتھی بار یہی گناہ، کوتاہی،جرم یا خطا، جو بھی آپ اس کو نام دیں، والد صاحب نے دھرائی ہے اور اب والدہ طلاق مانگ رہی ہیں اور والد صاحب طلاق دینے سے انکاری ہیں۔

لہذا ہم سب بھائیوں نے اب یہ طے کر لیا ہے کہ ان سے ہر قسم کا سماجی اور مالی بائیکاٹ کرں گے؛ تاکہ وہ یا والدہ کو چھوڑ دیں اور اگر والدہ چاہییں تو ان کو والدہ اور ہماری تمام شرطیں ماننی پڑیں گی، جن میں سرفہرست یہ ہے کہ وہ سمارٹ فون اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال چھوڑ دیں گے؛ کیوں کہ وہ انتہائی شرم ناک حرکتوں میں مکرر ملوث ہوئے ہیں، اور اب ہم مزید ان کو ہماری خاندانی شرافت اور عزت کو سر بازار نیلام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ہی والد صاحب کو ہماری بیمار والدہ کو  ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانے کی اجازت دے سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا والد صاحب کو قائل کرنے کا یہ طریقہ جو ہم نے اختیار کیا ہے شرعاً ہمارے لیے جائز ہے؟ اگر نہیں، تو پھر قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری ایسی راہ نمائی فرمائیں جو کافی اور شافی ہو!

جواب

بصورتِ مسئولہ والد صاحب کو تنہا کرکے گناہوں میں ملوث چھوڑنے سے بہتر ہے کہ انہیں گناہوں سے بچانے کی کوشش کریں، والدہ کی دنیوی تکلیف کے ساتھ ساتھ والد کی آخرت کی فکر بھی مدِّ نظر رکھیں، والد صاحب کو سلیقے سے سمجھانے کی کوشش کریں، اگر وہ اپنی حرکت سے توبہ کرلیتے ہیں تو پیرانہ سالی میں انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے، البتہ ان سے سمارٹ فون، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال ترک کرنے پر بات کی جاسکتی ہے۔ اگر والدکے اخراجات اولاد برداشت کرتی ہے تو یہ کیا جاسکتاہے کہ انہیں اتنی رقم نہ دی جائے جس سے وہ ان فواحش میں خرچ کرسکیں، یا ان کی ضروریات کی تمام اشیاء خود خرید کر انہیں مہیا کردی جائیں اور انہیں رقم نہ دی جائے۔

فاسق و فاجر شخص سے قطع تعلق کی گنجائش اس وقت دی گئی ہے جب کہ اصلاح کے دیگر ذرائع اختیار کیے جاچکے ہوں اور قطع تعلق سے اصلاح کی امید ہو، اگر یہ اندیشہ ہو کہ قطع تعلق سے مزید خرابی ہوگی تو تعلقات کی بحالی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرتے رہنا اور نصیحت جاری رکھنا چاہیے۔ البتہ جہاں تعلق کی بحالی کی صورت میں اس کی اصلاح کے بجائے اپنے (دینی یا دنیوی) نقصان کا اندیشہ ہو، وہاں بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت قطع تعلق کی گنجائش ہوتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں