بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد اور بیٹوں کے مشترکہ کاروبار کی تقسیم


سوال

ایک باپ کے ساتھ چار بیٹے مشترک کاروبار کر رہے ہیں،باپ کے مرنے کے بعد وراثت میں بیٹیاں کتنا حصہ لینے کی حق دار ہوں گی؟تقسیم وہی ہوگی یعنی ایک حصہ بیٹا اور نصف حصہ بیٹی کویا اس کا طریقہ کار الگ ہوگا؟ بیٹے 25 سال سے کاروبار میں شریک ہیں اور کاروبار کو بیٹوں نے وسعت دی ہو۔ اس کی تقسیم کیسے ہوگی اور بیٹوں کو زیادہ حصہ کاروبار کی وجہ سے ملے گا یا نہیں؟4 بیٹے  اور  5 بیٹیاں اس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر سارا سرمایہ والد کا ہے اور بیٹوں نےوالد کے ساتھ ان کے کاروبار کومحنت اور عمل کے ذریعہ وسعت دی ہے،اس صورت میں تمام کاروبار والد کا شمار ہوگا اور والد کے انتقال کی صورت میں  تمام کاروبار ان کا ترکہ شمار ہوگا اورتمام ورثاء اپنے شرعی حصص کے مطابق  اس کاروبار میں وراثت کے حق دار ہوں گے، بیٹے والد کی زندگی میں ان کے ساتھ ان کے کاروبار میں محض محنت کرنے کی وجہ سے  والد کے انتقال کے بعد زیادہ حصے کا استحقاق نہیں رکھتے۔

لہذا اگر والد کا انتقال ہوچکا ہے تو ان کا کل ترکہ(بشرطیکہ بیوہ موجو دنہ ہوں) 13حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جس میں سے دو، دو حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو دیاجائے گا۔

البتہ اگر آپ کے سوال کا مقصود یہ ہوکہ بیٹے بھی والد کے ساتھ کاروبار میں شریک (partner)ہیں  اور اس  کاروبار میں والد کے ساتھ ہر بیٹے کا سرمایہ لگا ہو اہے یا شرکت کے حصص متعین ہیں تو اس صورت میں بیٹوں کا سرمایہ اور ان کے سرمایہ کے بقدر کاروبار یا ان کے متعین حصے وراثت میں تقسیم نہیں ہوں گے ، البتہ جس قدر کاروبار کی ملکیت والد مرحوم کی ہوگی وہی ملکیت ترکہ میں شامل ہوکر مذکورہ بالا طریقے کے مطابق اولاد میں تقسیم ہوگی۔

فتاوی شامی  میں  ہے:

"الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في  عياله".

وفيه أيضاً:

"وكذلك لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولواختلفوا  في العمل والرأي".

(ج:٤،ص:٣٢٥،ط:سعيد) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں