بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارثوں کی رقم کا ناجائز استعمال


سوال

1 : ایک شخص انتقال کرجاتا ہے، اس شخص کے مرنے کے بعد وراثت کی کوئی تقسیم نہیں ہوتی اور بغیر تقسیم کے وارثوں کی اجازت کے بغیر ان پیسوں سے تیجا، دسواں، بیسواں اور چالیسواں کی دعوت اڑائی جاتی ہے، کیا ایسی دعوت کھانے والے حرام کھاتے ہیں؟ کیا قرآن کی وہ آیت جس میں ارشاد ہے کہ "یتیموں کا مال کھانے والے اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں" اس کا مصداق بنتے ہیں؟

2 : نیز قرآن پر کھانے کی شکل میں اجرت لینا کیا یہ بھی حرام ہے؟ کیا ایسے شخص حدیث کے مصداق ہیں جس میں ہے:  "قرآن پر اجرت لینے والوں کے چہرے قیامت کے دن ان کے چہروں پر گوشت نہیں ہوگا" بنتے ہیں؟

جواب

1 : واضح رہے کہ تیجا، دسواں، بیسواں اور چالیسواں کی رسم فی زمانہ رائج بدعات میں سے ہیں اور قابلِ ترک ہیں، پھر ورثاء کی اجازت کے بغیر ایسی دعوتیں کرنا اور اس میں میت کے ترکہ سے خرچ کرنا ناجائز اور حرام ہے، ایسی دعوتوں میں شرکت کرنا  اور کھاناناجائز ہے۔

سائل نے جس آیت  کا ترجمہ سوال میں ذکر کیا ہےیعنی: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا}، مذکورہ آیت کا مصداق ہر وہ شخص ہے جو کسی یتیم (ایسا نابالغ بچہ جس کا باپ فوت ہوگیا ہو) کا مال کسی بھی ناجائز طریقہ سے کھائے، لہذا اگر ورثا میں نابالغ یتیم بچے ہوں توان کے حصے کو ان بدعات و رسومات کی ادائیگی میں لگانا مذکورہ وعید کا مصداق ہے، لہذا ایسا کھانا کھانے سے اجتناب کیا جائے۔

أحكام القرآن للجصاص (2 / 373):

"وليس فيه إباحة لأكل مال اليتيم ظلمًا حتى يكون ناسخًا لقوله تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلمًا} والله أعلم."

الفتاوى الهندية (5/ 344) :

"وإن اتخذ طعامًا للفقراء كان حسنًا إذا كانت الورثة بالغين، فإن كان في الورثة صغير لم يتخذوا ذلك من التركة، كذا في التتارخانية."

2 : قرآن کی تلاوت کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے  اور  قرآن کے ذریعہ ناجائز طریقہ پر اجرت لینے والا سوال میں ذکر کی گئی وعید کا مصداق ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 56):

"والصواب أن يقال: على تعليم القرآن، فإن الخلاف فيه كما علمت لا في القراءة المجردة فإنه لا ضرورة فيها."

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (12 / 96):

"والأصل الذي بنى عليه حرمة الاستئجار على هذه الأشياء: أن كل طاعة يختص بها المسلم لايجوز الاستئجار عليها، لأن هذه الأشياء طاعة وقربة تقع على العامل. قال تعالى: {وأن ليس للإنسان إلا ما سعى} (النجم: 93) . فلا يجوز أخذ الأجرة من غيره كالصوم والصلاة، واحتجوا على ذلك بأحاديث: ... قال رسول الله، صلى الله عليه وسلم: (من قرأ القرآن يأكل به الناس جاء يوم القيامة ووجهه عظمة ليس عليه لحم)."

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں