بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کو اس کا حصہ نہ دینا


سوال

میرے شوہر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔میرے شوہر کے والدین الحمدللہ صاحب حیثیت ہیں۔ 4 سال قبل میری ساس کا انتقال ہوا، ان کی ملکیت میں پیسے ،زیورات(جو کہ کافی تعداد میں تھا اور مجھے مکمل معلومات نہیں،کیوں کہ وہ ملازمت پیشہ تھیں ) اور یہ گھر شامل ہیں۔یہ سب کچھ میرے سسر کے تصرف میں ہے.

 1. ان کے انتقال کے دو سال بعد میرے سسر نے اپنے بیٹے کے علم میں لائے بغیر سارا زیور میری ساس کی بھانجی اور اپنی بھانجی میں تقسیم کر دیا اور کچھ زیور شادیوں میں تحفہ دینے کے لیے رکھ لیا، پیسوں کا کچھ علم نہیں۔مکان میری ساس کے نام ہے اور وہ ہمیں ہر تھو ڑے عرصے بعد یہ یاد دلاتے ہیں کہ یہ گھر ان کی ملکیت ہے اور ہمارا اس پر کوئی حق نہیں۔ان کا اپنا جو کچھ ہے وہ اس میں سے بیشتر حصہ میری ساس کی بھانجی کو دے چکے ہیں۔

اصل میں یہ بھانجی میری ساس اپنے گھر 26 سال پہلے لائی تھیں، جو اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ ہمارے گھر میں رہتی ہے، ساری خرابیوں کی جڑ یہی خاتون ہے، اپنےرہنے کے لیے اس نے ہمارے گھر میں بہت خرابی کی۔

 میری شادی کو 18 سال ہو چکے ہیں ہمارا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔میں نے اپنے شوہر کی آخرت کی فکر کرتے ہوئے ہمیشہ خاموشی اختیار کی۔میرے شوہر نے بھی ،نافرمانی نہ ہو جانے کے خیال سے، سسر سے اس بابت سوال نہیں کیا۔ بس ہم اپنا معاملہ اللہ رب العالمین کے حوالے کر کے خاموش ہیں۔

 لیکن صورت حال بہت دل دکھاتی ہے،میں پڑھی لکھی ہوں تو بدتمیزی کے خیال سے بھی خوفزدہ ہو جاتی ہوں کہ اللہ کو جواب دہ ہو ں۔ برائے مہربانی میرا مسئلہ سمجھ کر اس کا جواب دیں کہ ہم کیا کریں اور ہمارا کیا شرعی حق ہے؟

 2.کل میری ساس کی برسی تھی ،میرے سسر نے محلے کے جن مفتی صاحب سے بیان کروایا وہ دراصل آپ کے ادارے سے منسلک ہیں، ان کا کہنا تھا کہ باپ کی جو جائیداد ہے اب بیٹے کا اس پرکوئی حق نہیں ؛ کیوں کہ بیٹا اب بالغ ہے اور اپنا کماتا ہے۔اب باپ جس کوچاہے اپنی جائیداد دے سکتا ہے۔یاد رہے کہ میرے سسر کے ان مفتی صاحب سے قریبی تعلقات ہیں، میرے سسر بالکل بھی دین دار نہیں، شریعت صرف اپنے مفاد کے وقت یاد آتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ مفتی صاحب نے کیا یہ درست فرمایا ہے؟ 

جواب

1۔آپ نے سوال میں تمام ورثاء کا تذکرہ نہیں کیا، اگر مرحومہ ساس کے ورثاء میں فقط ایک بیٹا اور شوہر حیات ہیں تو شرعی لحاظ سے مرحومہ کی ذاتی ملکیت میں جو سونا یانقد رقم یادیگراشیاء تھیں ان میں شوہر اور بیٹا دونوں حق دار تھے۔ترکہ کی تقسیم میں ایک حصہ شوہر کا اور تین حصے بیٹے کے بنتے ہیں۔لہذا آپ کے سسر کا اپنی زوجہ مرحومہ کے کل ترکہ پر قبضہ کرکے اپنی مرضی سے اس میں تصرف کرنا اور بھانجیوں  میں تقسیم کرنا ناجائز ہے۔آپ کے سسر اپنے حصہ کے بقدر مال کو اپنی بھانجیوں یااس کے علاوہ کسی اور کو دے سکتے ہیں ،لیکن اپنے بیٹے کا حصہ ان کی اجازت کے بغیر کسی کو دیناجائزنہیں ہے۔بیٹے کا جوحصہ اپنی والدہ مرحومہ کے ترکہ میں بنتا ہے وہ انہی کا حق ہے ۔والد کو چاہیے کہ وہ مرحومہ کے ترکہ میں سے اپنے بیٹے کا حصہ انہیں ادا کردیں۔

سائلہ اور اس کا شوہر جس گھر میں رہ رہے ہیں اگر وہ واقعۃً سائلہ کی ساس کی ملکیت تھا تو اس میں بھی سائلہ کے شوہر کا حصہ ہے، سائلہ کے سسر کے لیے اپنے بیٹے کے حصے میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز نہیں۔

2۔البتہ والد کی ذاتی ملکیت میں جو سامان یانقد رقم یا جائیداد ہے وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے خود مالک ہیں، والد کی حیات میں ان کی ملکیت میں سے اولاد کچھ طلب نہیں کرسکتی ،اس حد تک شریعت کا حکم یہی ہے۔اپنی اولاد کو محروم کرکے سارا مال کسی اور کو دے دینے سے وہ شخص مالک تو بن جائے گا، لیکن والد کے لیےکسی شرعی وجہ کے بغیر ایسا کرنا درست نہیں۔مزید یہ کہ بیٹے کواپنی والدہ سے میراث میں جو کچھ ملا ہے وہ بیٹے کا ہے اوربیٹا اس کے مطالبے میں حق بجانب ہے۔اگر بیٹا اپنے حصہ وراثت کامطالبہ کرتا ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ والد اگر ان کاحصہ روکتا ہے یا کسی اور کو دیتا ہے تو والد گناہ گار ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں