بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

واجب الوصول اجرت پر زکوۃ


سوال

ایک کمپنی ہے جو اپنے مختلف کلائنٹس کو سروسز دیتی ہے۔ اور کلائنٹس اس کا معاوضہ سروسز مہیا ہونے کے کبھی ایک سال، کبھی دو سال بعد دیتے ہیں۔ کبھی کلائنٹس یہ کہہ کر معاوضہ کی ادائیگی میں مہلت مانگ لیتے ہیں کہ ابھی وہ ادا کرنے سے معذور ہیں۔ کبھی پیسے نہیں بھی ملتے اور ٹال مٹول چلتی رہتی ہے۔ البتہ کمپنی اپنا کام مکمل کرلینے کے بعد کلائنٹ کو ایک اِنوائس / رسید بناکر دے دیتی ہے جس میں اجرت / معاوضے سے متعلق تفصیل مذکور ہوتی ہے۔ مثلاً معاوضے کی کل رقم کتنی ہے ؟ کتنی مدت کے اندر یا بعد معاوضہ ادا کرنا ہے وغیرہ (عموماً کمپنی ایک ہفتے سے تین ہفتوں کا وقت دیتی ہے) تو اب مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ اس طرح سے جو رقم کلائنٹس کے ذمہ واجب الادا ہیں اور وہ کمپنی کو ادائیگی میں تاخیر / ٹال مٹول کر رہا ہے ، کمپنی کے ذمہ اس کی زکوة آئے گی یا نہیں ؟ نیز یہ بھی بتادیں کہ کیا یہ رقم کلائنٹ کے ذمہ قرض ہوگئی ہے ؟ کمپنی کے معاوضے کی جو رقم کلائنٹ کے ذمہ ہوتی اس کے بارے میں کمپنی کو بعض اوقات یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ پیسے ملیں گے یا نہیں!

جواب

واضح رہے کہ کمپنی کی جو رقم کلائنٹس کے ذمہ واجب الادا  ہے ،وہ اب تک کمپنی کی ملکیت میں نہیں آئی، اس کا حکم  دینِ  ضعیف کا ہے؛  لہٰذا  جب تک یہ وصول نہ ہو جائے کمپنی پر اس کی زکوٰۃ دینا لازم نہیں۔

وفي النتف في الفتاوى:

" و أما الضعيف فهو مال غير بدل عن مال مثل مهر المرأة والصلح من دم العمد و السعاية و الميراث و الوصية و نحوها، فهذا ليس عليه زكاة."

(1/ 170،ط:دار الفرقان)

وفي الدر المختار:

"(و) عند قبض (مائتين مع حولان الحول بعده) أي بعد القبض (من) دين ضعيف وهو (بدل غير مال) كمهر ودية وبدل كتابة وخلع، إلا إذا كان عنده ما يضم إلى الدين الضعيف."

(2/ 306،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں