بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وائرس و وبا کی وجہ سے سے جمعہ و جماعات کے لیے مساجد کو بند کردینا اور گھروں میں نماز پڑھنے سے متعلق ایک حدیث سے استدال اور اس کا جواب


سوال

آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے باجماعت نماز کو ترک کرنے کی بھی رائے آ رہی ہیں جب کہ کچھ ممالک نے تو مسجد میں باجماعت نماز پر پابندی بھی عائد کر دی ہے۔ اس کی حمایت میں ایک حدیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس میں بارش کے وقت لوگوں کو مسجد سے اعلان کر کے گھروں میں نماز پڑھنے کا کہا گیا۔ کیا اس حدیث کی روشنی میں آج کل کے حالات میں جماعت کی نماز ترک کی جاسکتی ہے؟ اور کیا اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت مسجد میں کسی بھی صحابی نے جماعت سے نماز نہیں پڑھی یعنی اس اعلان کے بعد اس مسجد میں جماعت ہوئی ہی نہیں؟

جواب

               کسی بھی آفت، خوف اور حملے کے وقت مساجد کو بالکلیہ بند کرنے اور جمعات و جماعات کا انتظام ترک کردینے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، میدانِ جنگ میں دشمن کے حملے کا خطرہ ہو تو بھی شریعت نے صلاۃ الخوف کی صورت میں جماعت کے اہتمام کی ترغیب دی ہے، اور روئے زمین پر موجود جگہوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں، یہ اللہ کے گھر ہیں، اللہ کی رحمت و برکات کے نزول کا موقع و مظہر ہیں، مصائب و آفات میں امت کو چاہیے کہ وہ نماز اور دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے اور اللہ کی طرف رجوع ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود قرآنِ مجید میں مختلف جگہوں پر پریشانیوں سے نجات کا حل رجوع الی اللہ، استغفار اور بعض جگہ نماز کو  قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} [البقرة: 153]

ترجمہ:  اے ایمان والو! صبر  اور  نماز سے سہارا حاصل کرو ، بلاشبہ حق تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ( اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ تو بدرجہٴ اولیٰ) ۔ (ترجمہ و فائدہ از بیان القرآن)
{وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ } [البقرة:155- 157]

ترجمہ: اور (دیکھو) ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجیے ۔(جن کی یہ عادت ہے) کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (مع مال واولاد حقیقتہ) اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب (دنیا سے) اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانے والے ہیں۔ ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور (سب پر بلاشتراک) عام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ ہیں جن کی (حقیقت حال) تک رسائی ہوگئی۔

ف 5:  یہ خطاب ساری امت کو ہے توسب کو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیادار المحن ہے یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھنا چاہیے۔ (ترجمہ مع فائدہ از بیان القرآن)
اور رسول اللہ ﷺ کا معمول حدیث شریف میں یہ بیان کیا گیا ہے:

سنن أبي داؤد، کتاب الصلاة، باب وقت قیام النبي ﷺ، (1/195) ط: رحمانیه، لاهور:

’’عن حذیفة قال: کان النبي صلی الله علیه وسلم إذا حزبه أمر صلی‘‘.

ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب بھی کسی معاملے میں پریشانی ہوتی آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے۔

                     مذکورہ بالا آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم تمہیں خوف (کسی بھی قسم کا ہو)، بھوک، اموال کی کمی (معاشی نقصانات)، انسانی جانوں کی کمی (ہلاکت کی صورت میں ہو یا اَمراض کی صورت میں) اور پھلوں کی کمی (قدرتی ہوں یا مصنوعات) سے آزمائیں گے، اس موقع پر مسلمان کی شان سوائے صبر اور تفویض اور رجوع الی اللہ اور نماز پڑھ کر اللہ سے مدد مانگنے کے اور کچھ نہیں ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ غمی و خوشی، تکلیف و راحت، بیماری و صحت، تنگ دستی و فراوانی ہر حال میں متواتر توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ میں مشغول رہیں، صحیح مسلم میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤمن کی بھی عجیب شان و حالت ہے، اس کے لیے ہر معاملہ سراپا خیر ہے، اور یہ خصوصیت سوائے مؤمن کے کسی کو حاصل نہیں ہے، (وہ خصوصیت یہ ہے کہ) اگر اسے خوشی کی حالت پہنچے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتاہے تو یہ اس کے لیے خیر کا باعث ہوتاہے، اور اگر اسے تکلیف کی حالت پہنچے تو صبر کرتاہے، یہ بھی اس کے لیے خیر کا سبب ہوتاہے۔ (رواہ مسلم)

باقی اس کو  سوال میں ذکر کردہ حدیث پر قیاس کرکے استدلال کرنا  درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس حدیث میں نہ صرف یہ کہ اس کا ذکر نہیں ہے، بلکہ عملی طور پر اس کے خلاف ثابت ہے، اور اسی حدیث کے بعض طرق میں ایسے الفاظ موجود ہیں جن میں وضاحت ہے کہ جو چاہے نہ آئے، یعنی جماعت ترک کرنا لازم نہیں قرار دیا گیا، چناں چہ  رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی اس کے لیے مساجد بند نہیں کی گئیں، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ادوار میں اور نہ ہی اس کے بعد کسی دور میں، اور نہ ہی ان احوال میں جماعت سے نماز موقوف کی گئی،  (قدرتی آفات، زلزلوں، سیلاب، فساد وبلوی یا وبائی امراض سے اتنی ہلاکتیں ہوجائیں کہ پوری بستی ہی ویران ہوجائے یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پوری امت کو ایسی بلاؤں سے محفوظ رکھے۔) بلکہ اس اعلان کا مقصد یہ تھا کہ گھر میں کوئی نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لیے سختی نہیں ہوگی،  تاہم جو آنا چاہے ان لوگوں کی اطلاع اور بلاوے کے لیے اذان دی جارہی ہے۔  چناں چہ ان اَدوار میں بھی مساجد آباد رہیں اور اس اعلان کے بعد بھی جو لوگ مسجد کے قرب و جوار میں ہوتے وہ نماز باجماعت میں شریک ہوجاتے۔
                                    رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ جمعہ کی نماز کے وقت بارش کے موقع پر اپنے مؤذن سے جب یہ اعلان کروایا تو لوگوں کو تعجب ہوا، گویا انہوں نے اسے پسند نہیں کیا، اس پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے وضاحت فرمائی کہ مجھے معلوم ہے کہ جمعہ لازم اور بہت اہمیت کا حامل ہے، اور تم لوگ جمعے کی اس اہمیت کے پیشِ نظر تیز بارش میں بھی اس مشقت کے باوجو د جمعے میں حاضر ہونا واجب سمجھوگے، جب کہ شریعت میں اتنی سختی نہیں ہے، چناں چہ مجھ سے افضل یعنی رسول اللہ ﷺ نے بھی سردی کی راتوں میں بارش کے موقع پر یہ اعلان کروایا ہے،  اور یہی رخصت بتانے کے لیے میں نے اعلان کروایا ہے؛ تاکہ تم لوگ کیچڑ میں پھسل نہ جاؤ اور سخت بارش کے موقع پر تکلیف اٹھا کر جماعت میں آنا لازم نہ سمجھو۔

                                  امام نووی رحمہ اللہ اس کے تحت لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے شدید اَعذار کی صورت میں جمعے کا وجوب ساقط ہوجائے گا، جیساکہ شافعیہ کی رائے ہے اور امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے علاوہ قول منقول ہے۔

                              یعنی اگر کوئی شخص اس حالت میں جمعے میں نہ آئے تو وہ ان وعیدوں کا مستحق نہیں ہوگا جو جمعہ ترک کرنے کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں، اسی طرح جماعات کا بھی حکم ہوگا، نہ یہ کہ مساجد سے جماعت اور جمعے کا اہتمام ہی موقوف کردیا جائے گا، جیساکہ ذیل کی عبارت سے واضح ہے:

شرح النووي على الصحیح لمسلم، کتاب صلاة المسافرین و قصرها، باب الصلاة في الرحال في المطر، (1/243،244) ط: قدیمي، کراچي:

"[ 697 ] قوله: "أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يأمر المؤذن إذا كانت ليلة باردة أو ذات مطر في السفر أن يقول: ألا صلوا في رحالكم، [ 698 ] وفي رواية: "ليصل من شاء منكم في رحله"، وفي حديث بن عباس رضي الله عنهما: أنه قال لمؤذن في يوم مطير: إذا قلت أشهد أن محمدًا رسول الله فلا تقل حي على الصلاة قل: صلوا في بيوتكم، قال: فكأن الناس استنكروا ذلك، فقال: أتعجبون من ذا؟ فقد فعل هذا من هو خير مني، أن الجمعة عزمة، وإني كرهت أن أحرجكم؛ فتمشوا في الطين والدحض، وفي رواية: فعله من هو خير مني يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم، هذا الحديث دليل على تخفيف أمر الجماعة في المطر ونحوه من الاعذار، وأنها متأكدة إذا لم يكن عذر، وأنها مشروعة لمن تكلف الإتيان إليها، وتحمل المشقة؛ لقوله في الرواية الثانية: ليصل من شاء في رحله، وأنها مشروعة في السفر، وأن الأذان مشروع في السفر، وفي حديث ابن عباس رضي الله عنه: أن يقول: ألا صلوا في رحالكم في نفس الأذان، وفي حديث بن عمر أنه قال في آخر ندائه، والأمران جائزان نص عليهما الشافعي رحمه الله تعالى في الأم في كتاب الأذان، وتابعه جمهور أصحابنا في ذلك، فيجوز بعد الأذان وفي أثنائه؛ لثبوت السنة فيهما، لكن قوله بعده أحسن؛ ليبقى نظم الأذان على وضعه، ومن أصحابنا من قال: لايقوله إلا بعد الفراغ، وهذا ضعيف مخالف لصريح حديث ابن عباس رضي الله عنهما، ولا منافاة بينه وبين الحديث الأول حديث ابن عمر رضي الله عنهما؛ لأن هذا جرى في وقت، وذلك في وقت، وكلاهما صحيح، ...  قوله: إن الجمعة عزمة، بإسكان الزاي أي واجبة متحتمة، فلو قال المؤذن: حي على الصلاة؛ لكلفتم المجيء إليها ولحقتكم المشقة، قوله: كرهت أن أحرجكم، هو بالحاء المهملة من الحرج وهو المشقة، هكذا ضبطناه، وكذا نقله القاضي عياض عن رواياتهم، قوله: في الطين والدحض بإسكان الحاء المهملة وبعدها ضاد معجمة، وفي الرواية الأخيرة: الدحض والزلل هكذا هو باللامين والدحض والزلل والزلق والردغ بفتح الراء واسكان الدال المهملة وبالغين المعجمة كله بمعنى واحد، ... وفي هذا الحديث دليل على سقوط الجمعة بعذر المطر ونحوه، وهو مذهبنا ومذهب آخرين، وعن مالك رحمه الله تعالى خلافه، والله تعالى أعلم بالصواب".

                                اس حدیث کا صحیح مصداق سمجھنے کے لیے پس منظر سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نماز باجماعت کی اس قدر ترغیب و تاکید تھی کہ اس دور میں جماعت ترک کرنا نفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا، اور آپ ﷺ نے بلاعذر جماعت ترک کرنے والوں کے گھر مع ان کے اہل وعیال و ساز و سامان جلانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، نیز آپ ﷺ نے نابینا شخص کو بھی جماعت سے رخصت نہیں دی، جیساکہ ذیل کی روایات سے جماعت کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے، ان ہی روایات کی روشنی میں بعض ائمہ کی رائے یہ ہے کہ جماعت سے نماز ادا کرنا فرض کا درجہ رکھتاہے، اور بلاعذر جماعت کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، اب اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے سخت سردی کی راتوں میں اندھیرے اور تیز بارش کے باوجود جماعت سے رکنے کی اجازت نہ دی جاتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجدِ نبوی میں نماز کے لیے ضرور حاضر ہوتے، خواہ انہیں کتنی ہی مشقت اٹھانی پڑتی، جب کہ رسول اللہ ﷺ تو  آسان اور نرم شریعت لے کر تشریف لائے ہیں، اور دین میں حرج اور تنگی بالکل بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے مؤذن سے صراحتاً اعلان کروادیا؛ تاکہ جو مسلمان اس عذر کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھنا چاہے، کہیں لوگ اسے منافق یا دین میں سستی کرنے والا نہ سمجھیں، نہ یہ کہ ان اعذار  کی وجہ سے مسجد میں بالکلیہ جماعت ختم کرنے کا اعلان تھا؛  لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانےکا موجودہ ایمانی و عملی انحطاط کے زمانے سے موازنہ کرنا نا انصافی ہوگا۔

  خلاصۂ حکم

                                     نمازِ جمعہ اور نماز باجماعت کے لیے مساجد بالکلیہ بند کردینا جائز نہیں ہے،   صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اور بعد کے اَدوار میں بھی طاعون وغیرہ کی وبائیں پھیلی ہیں، جن کی ہلاکت خیزی مخفی نہیں ہے، لیکن سلفِ صالحین نے سخت ہلاکت کے مواقع پر بھی مساجد کی بندش اور جمعات بالکلیہ ترک کرنے کے فتاویٰ اور اَحکام صادر نہیں فرمائے، بلکہ ان کے اَدوار میں مساجد کی طرف رجوع مزید بڑھ گیا، جیساکہ  قاضی عبد الرحمن القرشی الدمشقی الشافعی اپنے زمانہ میں 764 ھ کے طاعون سے متعلق لکھتے ہیں:

                      ’’جب طاعون پھیل گیا اور لوگوں کو ختم کرنے لگا، تو لوگوں نے تہجد، روزے، صدقہ اور توبہ واستغفار کی کثرت شروع کردی اور ہم مردوں،  بچوں، اور عورتوں نے گھروں کو چھوڑدیا ہے اور مسجدوں کو لازم پکڑلیا، تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا‘‘۔

قال قاضي صفد محمد القرشي (ت: بعد ٧٨٠هـ) في (شفاء القلب المحزون في بيان ما يتعلق بالطاعون/مخطوط) ‏متحدثًا عن الطاعون سنة ٧٦٤هـ:

  ‏«وكان هذا كالطاعون الأول عمّ البلاد وأفنى العباد، و كان الناس به على خير عظيم: ‏مِن إحياء  الليل، وصوم النهار، والصدقة، والتوبة .... ‏فهجرنا البيوت؛ ولزمنا المساجد، ‏رجالنا وأطفالنا ونساءنا؛ ‏فكان الناس به على خير".

حیاۃ الصحابۃ میں ہے :

                            ’’حضرت سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کہتے ہیں:  جب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اُردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو جتنے مسلمان وہاں تھے ان کو بلا کر ان سے فرمایا:
میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اگر تم نے اسے مان لیا تو ہمیشہ خیر پر رہو گے اور وہ یہ ہے کہ نماز قائم کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، زکاۃ ادا کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کو (نیکی کی) تاکید کرتے رہو اور اپنے امیروں کے ساتھ خیرخواہی کرو اور ان کو دھوکا مت دو اور دنیا تمہیں (آخرت سے) غافل نہ کرنے پائے؛ کیوں کہ اگر انسان کی عمر ہزار سال بھی ہوجائے تو بھی اسے (ایک نہ ایک دن) اس ٹھکانے یعنی موت کی طرف آنا پڑے گا جسے تم دیکھ رہے ہو۔
                                    اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لیے مرناطے کر دیا ہے، لہٰذا وہ سب ضرور مریں گے اور بنی آدم میں سب سے زیادہ سمجھ دار وہ ہے جو اپنے ربّ کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور اپنی آخرت کے لیے سب سے زیادہ عمل کرے۔ (2/165، ط: مکتبۃ الحسن)

                                    تاہم اگر کسی علاقے میں واقعتاً کوئی وبا (کرونا وائرس وغیرہ) عام ہوجائے تو  اس علاقے میں موجودہ مریضوں کو  جماعت میں شریک نہیں ہونا چاہیے، اور (حقیقتاً مرض پائے جانے کی صورت میں) دیگر اہلِ محلہ (جو اس وبائی مرض میں مبتلا نہ ہوں) کے لیے مساجد میں نماز نہ پڑھنے  کی رخصت تو ہوگی، البتہ اس محلے کے چند لوگوں کو مسجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کرنا ضروری ہوگا  اور اگر مسجد میں باجماعت نماز پورے محلے والوں نے ترک کردی تو پورا محلہ گناہ گار ہوگا؛ کیوں کہ مسجد کو اس کے اعمال سے آباد رکھنا فرضِ کفایہ ہے۔

                                  نیز  جو لوگ مسجد کی جماعت میں شریک نہ ہوں انہیں بھی چاہیے کہ وہ جماعت ترک نہ کریں، بلکہ پنج وقتہ فرض نمازیں گھروں یا دفاتر میں موجود افراد کی جماعت کے ساتھ ادا کریں؛ تاکہ حتی الامکان جماعت کا اجر و ثواب حاصل ہوجائے۔

                                   اور جس علاقے میں کرونا وائرس کی وبا عام نہ ہو تو  کرونا وائرس کے ڈر سے جماعت کی نماز ترک کردینا شرعی عذر نہیں ہے، بلکہ توہم پرستی ہے جو کہ ممنوع ہے۔ 

                             مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ انتظامیہ یا اہلِ محلہ کا مسجد میں جماعت سے نماز  پڑھنے پر پابندی لگانا جائز نہیں ہے، جمعہ اور پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ اوقات میں مساجد بند کرنے کی اجازت ہے۔ مساجد کو بالکلیہ معطل کرنے اور ان میں نمازوں اور ذکر پر پابندی لگانے کے حوالے سے نصوص میں سخت وعید وارد  ہوئی ہے اور ان کے اس عمل کو "ظلم" قرار دیا گیا ہے۔

﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْهَا اسْمُهُ وَ سَعٰی فِیْ خَرَابِها ؕ اُولئك مَا کَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ ۬ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾  [البقرة:۱۱۴]

ترجمہ: اور اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہوگا جو خدا تعالیٰ کی مسجدوں میں ان کا ذکر ( اور عبادت) کیے جانے سے بندش کرے اور ان کے ویران (ومعطل) ہونے (کے بارے) میں کوشش کرے ۔ ان لوگوں کو تو کبھی بےہیبت ہوکر ان میں قدم بھی نہ رکھنا چاہیے تھا، (بلکہ جب جاتے ہیبت اور ادب سے جاتے) ان لوگوں کو دنیا میں بھی رسوائی (نصیب) ہوگی اور ان کو آخرت میں بھی سزائے عظیم ہوگی ۔  (بیان القرآن)۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

کرونا وائرس (corona virus) کی وجہ سے نمازِ جمعہ چھوڑنے کا حکم اور اس حوالے سے شرعی اَحکام کی راہ نمائی


فتوی نمبر : 144107200994

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں