بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

"وإذ قال ربك للملائكة إنى جاعل في الارض خلیفة" اس آیت میں خلیفہ سے کیا مراد ہے؟


سوال

"وإذ قال ربك للملائكة إنى جاعل فى الارض خلیفة "  اس آیت کا کیا مطلب ہے؟کیا انسان اللہ کا خلیفہ ہے؟آیت میں خلیفہ کس معنی میں ہے ؟کیا یہ بات درست ہے کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے اگر ہاں تو کہاں سے ثابت ہے اور کس معنی میں انسان اللہ کا خلیفہ  ہے ؟

جواب

مفسرینِ  کرام نے مذکورہ آیت میں موجود لفظِ "خلیفہ" کی دو توجیہات  کی ہیں ،کہ لفظِ"خلیفہ "سے کیا مراد ہے ؟آیا فقط آدم علیہ السلام مراد ہیں یا  زمین پر  بسنے والے انسان مراد ہیں ؟

پہلی تفسیر:

 یہ ہے کہ خلیفہ سے مراد حضرت آدم ( علیہ السلام) ہیں ؛کیونکہ وہ احکام الٰہیہ اور ضوابط کے اجراء اور بندوں کی ہدایت اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دینے اور مراتب قرب پر فائز کرانے کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلیفہ تھے ، ان کے خلیفہ بنانے کی یہ وجہ نہ تھی ،کہ خدا تعالیٰ کو ان کی حاجت تھی،وہ تو غنی اور بےنیاز ہے، اسے کسی شئے کی بھی حاجت نہیں، بلکہ وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) جن لوگوں کے خلیفہ بنائے گئے وہ حق تعالیٰ سے بلاواسطہ مستفیض نہیں ہو سکتے تھے ،اور نہ اس کے اوامر  و نواہی کو بلا واسطہ ووسیلہ حاصل  کرسکتے تھے،اس لیے حضرتِ آدم علیہ السلام  کو  زمین میں اپنا جانشین و خلیفہ بنایا،  یہ خلیفۃ اللہ بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے اس کے احکام معلوم کرتے اور پھر ان کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں یہ سلسلہ خلافت ونیابت الہیہ کا آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ایک ہی انداز میں چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری خلیفہ ہو کر بہت ہی اہم خصوصیات کے ساتھ تشریف لائے۔

دوسری تفسیر :

یہ ہے کہ"خلیفہ "سے مراد آدم علیہ السلام کی اولاد  ہے۔

آدم علیہ السلام کو خلیفہ کہنے کی وجوہات:

1۔مفسرین نے اس بات میں دو وجہوں پر اختلاف کیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو خلیفہ کیوں کہا گیا،پہلی وجہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی گئی ہے کہ جب اللہ نے زمین سے جنوں کو نکالا اور آدم علیہ السلام کو آباد کیا تو آدم علیہ السلام ان جنوں کے خلیفہ ہو گئے جو  پہلے  ہو گزرے، اس لیے کہ آدم علیہ السلام ان کے بعد میں آئے۔

2۔وہ اللہ کی مخلوق کے درمیان اللہ کا حکم نافذ کرے گا اور یہ بات عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور مفسر سدی سے روایت کی گئی ہے۔

انسان کس معنی میں اللہ کا خلیفہ ہے؟

 مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا  کہ  خلیفہ ہونے کا یا تو یہ مفہوم ہے کہ یہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل، اطاعت و فرماں برداری اور شرعی قواعد و ضوابط کا نفاذ کرتا ہے یا پھر یہ ایک دوسرے کے بعد اس زمین پر وارد ہوتے ہیں اور صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیام قیامت جاری رہے گا، جیسا کہ امام ابن کثیر کے حوالے سے اور کئی ایک آیات قرآنیہ کےذیل میں موجود ہیں ، البتہ اگر کوئی شخص انسان کو اللہ کا نائب یا خلیفہ اس معنوں میں لے کہ اللہ تعالیٰ کے کام انسان کرتا ہے اور اس کے افعال میں نائب ہے تو یہ معنی غلط ہے،اور ایمان کے لیے خطرے کی بات ہے۔

وفي التفسير المظهري:

"والمراد بالخليفة آدم عليه السلام فانه خليفة الله في ارضه لاقامة أحكامه وتنفيذ قضاياه وهداية عباده وجذبهم الى الله واعطائهم مراتب قربه تعالى وذلك لا لاحتياج من الله تعالى الى الخليفة بل لقصور المستخلف عليهم عن قبول فيضه وتلقى امره بغير وسط- وكذلك كل نبى بعده خليفة الله۔"

(تفسير سورة البقرة،ج:1،ص؛148 ،ط:مكتبة الرشيدية)

وفي التفسير البغويؒ:

"والمراد بالخليفة هاهنا آدم سماه خليفة لأنه خلف الجن، أي: جاء بعدهم.وقيل: لأنه يخلفه غيره، والصحيح أنه خليفة الله في أرضه لإقامة أحكامه وتنفيذ قضاياه۔"

(تفسير سورة البقرة ،ج:1،ص:101،ط:دارإحياء التراث العربي)

وفي تفسير ابنِ كثير :

"{إني جاعل في الأرض ‌خليفة} أي: قوما يخلف بعضهم بعضا قرنا بعد قرن وجيلا بعد جيل، كما قال تعالى: {وهو الذي جعلكم خلائف الأرض} [الأنعام: 165] وقال {ويجعلكم خلفاء الأرض} [النمل: 62] . وقال {ولو نشاء لجعلنا منكم ملائكة في الأرض يخلفون} [الزخرف: 60] . وقال {فخلف من بعدهم خلف} [مريم: 59] . [وقرئ في الشاذ: "إني جاعل في الأرض خليقة" حكاه الزمخشري وغيره ونقلها القرطبي عن زيد بن علي] (4) . وليس المراد هاهنا بالخليفة آدم، عليه السلام، فقط، كما يقوله طائفة من المفسرين، وعزاه القرطبي إلى ابن مسعود وابن عباس وجميع أهل التأويل، وفي ذلك نظر، بل الخلاف في ذلك كثير، حكاه فخر الدين الرازي في تفسيره وغيره، والظاهر أنه لم يرد آدم عينا إذ لو كان كذلك لما حسن قول الملائكة: {أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء}."

(تفسير سورة البقرة،ج:1،ص:216 ،ط:دارطيبة للنشروالتوزيع)

وفی تفسیر الرازیؒ:

"المسألة الثامنة: الخليفة من يخلف غيره ويقوم مقامه قال الله تعالى: ثم جعلناكم خلائف في الأرض [يونس: 14] . واذكروا إذ جعلكم خلفاء [الأعراف: 69] فأما أن المراد بالخليفة من؟ ففيه قولان :

أحدهما:

"أنه آدم عليه السلام. وقوله: أتجعل فيها من يفسد فيها المراد ذريته لا هو"

والثاني:

أنه ولد آدم۔"

"أما الذين قالوا المراد آدم عليه السلامفقد اختلفوا في أنه تعالى لم سماه خليفة وذكروا فيه وجهين:

الأول:

بأنه تعالى لما نفى الجن من الأرض وأسكن آدم الأرض كان آدم عليه السلام خليفة لأولئك الجن الذين تقدموه.يروى ذلك عن ابن عباس. "

الثاني:

إنما سماه الله خليفة لأنه يخلف الله في الحكم بين المكلفين من خلقه وهو المروي عن ابن مسعود وابن عباس والسدي وهذا الرأي متأكد بقوله: إنا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق [ص: 26]

أما الذين قالوا المراد ولد آدم فقالوا: إنما سماهم خليفة لأنهم يخلف بعضهم بعضا وهو/ قول الحسن ويؤكده قوله: وهو الذي جعلكم خلائف الأرض والخليفة اسم يصلح للواحد والجمع كما يصلح للذكر والأنثى وقرئ خليفة بالقاف."

(تفسیر سورۃ البقرۃ ،ج:2،ص:383 ،ط:دارإحیاء التراث العربی)

وفي اللباب في علوم الكتاب :

"واختلفوا في أنه لِمَ سمّاه - أي: خليفة - على وجهين:

فروي عن «ابن عباس» أنه - تعالى - لما نفى الجنّ من الأرض، وأسكنها آدم كان آدم - عليه الصلاة والسَّلام - خليفة لأولئك الجنّ الذين تقدّموه، لأنه خلفهم.

والثاني:

إنما سمَّاه الله خليفةً، لأنه يخلف الله في الحكم بين خلقه، ويروى عن ابن مسعود، وابن عباس، والسّدي."

(تفسير سورة البقرة ،ج:1،ص:494 ،ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ  أعلم


فتوی نمبر : 144503100975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں