بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ آیت کا مفہوم


سوال

سورۃ البقرۃ  کی آیت 184{ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَ...} کا اردو ترجمہ پڑھا جس کا مفہوم یوں ہے:  جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ رکھیں تووہ فدیہ میں کسی مسکین کو کھلائیں،  اس کی تفسیر بتا دیں۔

جواب

مفسرین نے لکھا ہے کہ ابتداءِ اسلام میں جب روزہ فرض کیا گیا اس وقت صحت مند مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے درمیان اختیار تھا اور اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تھی، لیکن بعد میں یہ آیت منسوخ ہو گئی اور دوسری آیت نازل ہوئی  {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} اور اس آیت میں حتمی طور پر بلا اختیار صحت مندوں کو روزے کا حکم دے دیا گیا۔

روح البيان (1/ 290):
"{وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ} ذهب أكثر المفسرين إلى أن المراد بالذين يطيقونه الأصحاء المقيمون، خيرهم في ابتداء الإسلام بين أمرين: بين أن يصوموا وبين أن يفطروا ويفدوا لئلايشق عليهم؛ لأنهم كانوا لم يتعودوا الصوم ثم نسخ التخيير ونزلت العزيمة بقوله: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ}". 

فتح القدير للشوكاني (1/ 208):
"وقد اختلف أهل العلم في هذه الآية، هل هي محكمة أو منسوخة؟ فقيل: إنها منسوخة، وإنما كانت رخصة عند ابتداء فرض الصيام؛ لأنه شق عليهم، فكان من أطعم كل يوم مسكيناً ترك الصوم وهو يطيقه، ثم نسخ ذلك، وهذا قول الجمهور".

نیز دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہاں "لا" مقدر ہے، اور عربی زبان میں بابِ افعال کی ایک خاصیت سلبِ ماخذ ہے، گویا اصل عبارت یوں ہے: "وَعَلَى الَّذِينَ لايُطِيقُونَهُ" تو  مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ فدیہ ادا کر دیں، لیکن یہ قول ضعیف ہے۔

التفسير المظهري (1/ 192):
"وقال الشيخ الأجل جلال الدين في تفسير الاية بتقدير "لا" يعني وعلى الّذين لايطيقونه فدية ... كما في قوله تعالى: {يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا} أي لأن لاتضلّوا. قلت: وتقدير "لا" أيضاً بعيد؛ فإنه ضد ما هو ظاهر العبارة حيث يجعل الإيجاب
سلباً". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں