بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نیک عمل کے بعد استغفار کرنا


سوال

 1_ہر نیک عمل کے بعد استغفار کرنا سنت ہے؟ اگر سنت ہے تو برائے کرم حدیث حوالہ کے ساتھ اور اس کی صحت تفصیل سے بیان کر دیں کہ نیک کام کے بعد استغفار کی کیا حکمت ہے؟

2- ہاتھ اور پاؤں کے ناخن کاٹنےکا سنت طریقہ بیان فرما دیں!

جواب

 نیک عمل کے بعد استغفار کرنا  رسول اللہ ﷺ کے  عمل اور قرآنِ پاک کی آیات اور مختلف احادیث سے مستنبط ہے، صحیح حدیث میں ہے:

"کان رسول الله صلی الله علیه وسلم إذ انصرف من صلاته استغفر ثلاثاً"۔ (رواه مسلم)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ  نماز کے بعد تین مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔

نیز سورہ ذاریات میں متقین کی صفات بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ رات کو بہت کم سوتے ہیں، یعنی تہجد اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں، پھر سحر کے وقت وہ استغفار کرتے ہیں، یعنی تہجد کی ادائیگی اور عبادت کرنے کےبعد بھی (جب کہ بظاہر انہوں نے گناہ کا کام نہیں کیا) رات کے آخری پہر استغفار کرتے ہیں۔ اس مضمون کی ایک آیتسن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا (جس کا مفہوم یہ ہے کہ) کیا وہ گناہ گار ہوتے ہیں جو ڈرتے ہیں اور استغفار  کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب ارشاد فرمایا اس سے نیک عمل کے بعد استغفار کی درج ذیل حکمتیں معلوم ہوتی ہیں:

1۔  نمازوں یا کسی بھی نیک عمل میں غفلت وغیرہ کے حوالے سے جو کوتاہی رہ جاتی ہے اس پر استغفار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق کون ادا کرسکتاہے، اولاً عبادت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ نے دی ہے، پھر ہر شخص جانتاہے کہ اس کی نماز وعبادت کی کیا حالت ہے۔ یقیناً ہماری عبادات میں کوتاہیاں رہ جاتی ہیں، کہیں غفلت، کہیں ریا ونمود وغیرہ شامل ہوتی ہے؛ اس لیے نیک عمل کے اختتام پر استغفار کا مقصد اس عمل میں رہ جانے والی کوتاہیوں پر استغفار ہے کہ الٰہی تو نے اس عبادت کی توفیق بخشی، لیکن ہم سے عبادت کی ادائیگی کا حق ادا نہ ہوسکا، اس لیے ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

 2۔ نیک عمل کے بعد اس عمل کا قبول ہونا معلوم نہیں ہوتا، اس لیے استغفار پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی اس کو قبول فرمالیں۔

3۔ ہم یہ نہ دیکھیں کہ ہم سے کوئی گناہ ہوا ہے یا نہیں؟ بلکہ ہر آن و ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہمارے اوپر بارش کی طرح برس رہی ہیں، یقیناً ہم ان نعمتوں کا شمار بھی نہیں کرسکتے، چہ جائے کہ ان کا شکر ادا کریں، اور پھر یہ اس سے بھی بعد کا مرحلہ ہے کہ ہم عبادت کا حق ادا کریں، اس لیے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا اظہار اور اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرنا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کا استغفار کرنا پسند ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے۔ 

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود معصوم ہونے کے باوجود نماز کے بعد استغفار کرتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک مجلس میں ستر ستر بار اور بعض اوقات سو سو مرتبہ استغفار کرتے تھے،  اور سورہ نصر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا، حال آں کہ آپ ﷺ کی پوری زندگی ہی عباداتِ مقبولہ کی مرقع تھی، اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں:

1۔ اعمال کے آخر میں استغفار ہونا چاہیے، جیسے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا، اور آپ ﷺ ہر نماز کےبعد بھی استغفار کیا کرتے تھے۔

2۔ بندے کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس سے گناہ ہورہاہے یا نہیں، مطلقاً استغفار کی کثرت اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ کرنے اعمال کی قبولیت اور دل کا غبار دور کرنے کا ذریعہ ہے۔

3۔ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کی تعلیم اور تربیت کے لیے استغفار کرتے تھے کہ ہم لوگوں کے اعمال میں کوتاہیاں یقیناً رہ جاتی ہیں تو امت استغفار کی عادت بنالے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے ہر مجلس کے  بعد بھی یہ استغفار پر مشتمل ایک دعا پڑھنا مذکور ہے۔اور اس میں اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ استغفار نیکی پر مہر  کا کام دیتا ہے اور اگر گناہ کے بعد ہو تو اس کی معافی کا سبب ہے۔اسی طرح صحابہ  کرام کے بارے میں ہے کہ وہ رات تہجد پڑحنے کے بعد استغفار کرتے تھے۔

عمل الیوم واللیلة للنسائی (ص ۲۷۳، حدیث نمبر: ۳۰۸، ما یختم تلاوة القرآن)میں ہے:

"عن عائشة قالت: ما جلس رسول الله صلی الله علیه وسلم مجلساً قط ولا تلی قرآنًا ولا صلی صلاةً إلا ختم ذلک بکلمات، فقالت: فقلت: یا رسول الله! أراک ما تجلس (مجلسًا) اھ ولا تتلو قرآناً ولا تصلي صلاةً إلا ختمت بهوٴلاء الکلمات؟ قال: نعم، من قال خیرًا ختم له طابع علی ذلک الخیر، ومن قال شرًّا کن له کفارةً․ "سبحانک وبحمدک لا إله إلا أنت، أستغفرک وأتوب إلیک“․

تفسير ابن كثير ت سلامة (7/ 418):

"قوله عز وجل: {وبالأسحار هم يستغفرون} قال مجاهد، وغير واحد: يصلون. وقال آخرون: قاموا الليل، وأخروا الاستغفار إلى الأسحار. كما قال تعالى: {والمستغفرين بالأسحار} [آل عمران: 17]، فإن كان الاستغفار في صلاة فهو أحسن. وقد ثبت في الصحاح وغيرها عن جماعة من الصحابة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "إن الله ينزل كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الأخير، فيقول: هل من تائب فأتوب عليه؟ هل من مستغفر فأغفر له؟ هل من سائل فيعطى سؤله؟ حتى يطلع الفجر".

وقال كثير من المفسرين في قوله تعالى إخباراً عن يعقوب أنه قال لبنيه: {سوف أستغفر لكم ربي} [يوسف 98] قالوا: أخرهم إلى وقت السحر".

﴿ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ ﴾ [المؤمنون: 60]، سألت عائشة - رضي الله عنها - رسولَ الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الآية، فقالت: "يا رَسُولَ الله، هو الذي يَسْرِقُ ويزني وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ، وهو يَخَافُ الله؟" قال: ((لاَ يا بِنْتَ أَبِى بَكْرٍ؛ وَلَكِنَّهُ الرَّجُلُ يَصُومُ ويصلي وَيَتَصَدَّقُ، وهو يَخَافُ أَلاَّ يُقْبَلَ منه))؛ رواه أحمد".

2-ناخن جس طرح چاہیں کاٹ سکتے ہیں، کوئی مخصوص طریقہ لازم ومتعین نہیں، اچھا یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے ابتدا کریں، اور چھوٹی انگلی کے بعد دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن بھی کاٹ لیں، پھر بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے کاٹتے ہوئے انگوٹھے پر ختم کریں۔  اور پیر کے ناخن میں دائیں پیر کی چھوٹی انگلی سے ابتدا کریں اور انگوٹھے پر ختم کریں، اور بائیں پیر  کے انگوٹھے سے شروع کرکے چھوٹی انگلی پر ختم کریں۔
’’ حاشیة صحیح البخاري ‘‘ : ولم یثبت في ترتیب الأصابع عند القصر شيء من الأحادیث، لکن ذکر النووي في شرح مسلم أنه یستحب البدأة بمسبحة الیمنی ثم الوسطی ثم البنصر ثم الخنصر ثم الإبهام، وفي الیسری البدأة بخنصرها ثم بالبنصر إلی الإبهام. ویبدأ في الرجلین بخنصر الیمنی إلی الإبهام وفي الیسری بإبهامها إلی الخنصر، ولم یذکر الاستحباب مستندًا. کذا في الفتح والعیني". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں