بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نیوتہ کی رسم


سوال

ہماری شادیوں میں ایک رواج عام ہے ہمارے شہر میں کہ دعوت ولیمہ کی تقریب میں دولہا کی طرف مہمانوں سے(سلام)لیا جاتا ہے  100،200،500،1000 روپے کی صورت میں، اور ایک کاپی پہ لکھا جاتا ہے کہ کس نے کتنے روپے دیے ہیں۔ دیکھنے میں یہ آیا کہ ایک آدمی کی شادی ہوئی 2001ء میں اس نے اس وقت کے حساب سے 50 روپے لیے۔ اب 2018 ء میں اسے برادری اور وقت کے حساب سے 100 یا 200 روپے دینے پڑتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 شادی اور ولیمہ کی دعوت میں آنے والے لوگ اگر صاحبِ دعوت یعنی دولہا یا دولہن کو اس لیے رقم یا لفافہ دیتے ہیں کہ بعد میں وہ صاحبِ دعوت رقم یا لفافہ دینے والوں کی شادی کی دعوت میں اس سے زیادہ رقم واپس کرے گاتو یہ سودی قرض ہے اور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے، اور اگر دینے والے اس نیت سے دیتے ہیں کہ صاحبِ دعوت ان کی دعوت میں اتنی ہی رقم واپس کرے گا تو یہ قرض ہے، اور اسی قدر واپسی لازم ہے۔
البتہ اگر واپس لینے کی نیت نہ ہو، خالص ہدیہ یا مدد و تعاون ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ شریعت میں مطلوب ہے، اور شادی، ولیمہ میں رقم وغیرہ دیتے ہوئے خالص ہدیہ کی ہی نیت کرنی چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:
’’وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل، يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته، وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ.قلت: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمةً يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه‘‘. (کتاب الهبة، ج:۵ ؍۶۹۶ ط: سعید)
    درر الحکام في شرح مجلة الأحکام
میں ہے:
’’الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف ... (الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفاً وعادةً على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات، وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل، بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة، ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك، والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً‘‘. (الکتاب السابع الهبة، المادة:۸۷۶ ،ج:۲ ؍ ۴۸۱ ،۴۸۲ ،ط:دار الجیل)
شرح المجلة لخالد الأتاسي
میں ہے:
’’الهدایا التي ترد في عرس الختان و الزفاف ... و هذا کله علی فرض أن المرسل هدیة، أما لو ادعی المرسل أنه قرض، ففي الفتاویٰ الخیریة ما نصه: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ .قال في رد المحتار: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه‘‘ اهـ
    قلت: والعرف الغالب في حمص أنهم ینظرون في ذلک إلی إعطاء البدل، وعلیه فما یهدی في ذلک من أرز أو سکر أو سمن أو شاة حیة یکون قرضاً صحیحاً أو فاسداً، فیطالب به من عمل الولیمة من أب أو غیره، و مثل هذا ما یهدیه أقارب العروس من النساء و البنات بعد أسبوع من زفافها و یسمونه نقوطاً في بلادنا، فلا شک أنه قرض تستوفیه کل واحدة منهن إذا تزوجت أو زوجت بنتها في یوم أسبوعها‘‘. (الکتاب السابع الهبة، المادة:۸۷۶ ،ج:۳؍ ۴۰۱ ،۴۰۲ ،ط:مکتبة إسلامیة 
کوئٹہ) فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144004200044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں