بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نیشنل سیونگ بنک کا حکم


سوال

 میرے تایا جان کا انتقال تقریباً ایک ماہ قبل ہوا ہے، انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کم وبیش پچاس لاکھ کی رقم نیشنل سیونگ بنک میں رکھوائی تھی جو کہ خاص طور پر پینشنریز کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ہماری دست یاب معلومات کے مطابق اس معاملے میں منافع فکس نہیں، بلکہ بدلتا رہتا ہے ۔اور اپنی زندگی میں تایا جان نے ایک بار فرمایا بھی تھا کہ اس ماہ مجھے نقصان ہوا ہے۔گویا کہ نفع اور نقصان دونوں ہو سکتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق اس اکاؤنٹ سے فوجی اور حکومتی ادارے شاید کاروبار کرتے ہیں، لیکن یہ سب معلومات یقینی اور حتمی نہیں ہیں؛  لہذا اسی پریشانی کے پیشِ نظر آپ سے رجوع کیا ہے ۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرمادیجیے کہ اس رقم سے زائد منافع کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نیشنل سیونگ سرٹیفکٹ کی صورت میں جو نفع ملتا ہے وہ شرعاً سود ہے ، لہذا اس کا خریدنا اور منافع لینا درست نہیں،قرآنِ کریم میں ہے:

{يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين فإن لمتفعلوا فأذنوا بحرب من اللهورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لاتظلمون ولاتظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون} (البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ )

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگےتو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤگے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔(بیان القرآن ) فقط واللہ اعلم

ہماری معلومات  کے مطابق اس میں منافع مخصوص ہوتا ہے۔

تفصیل کے لیے  دیکھیں:http://savings.gov.pk/wp-content/uploads/DEFENSE-PROFIT-RATES-1-1.pdf


فتوی نمبر : 144004200374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں