بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے گواہوں کا دلہا دلہن کو جاننا


سوال

شریعت میں نکاح کے جو دومرد گواہ ہوتے ہیں ان کی کیا شرط ہوتی ہے؟  کیا گواہوں کے لیے دلہا اور دلہن کے نام ولدیت جاننا ضروری ہے؟  یا نکاح میں کسی بھی دواجنبی مسلمان مردوں کوگواہ بنایا جا سکتا ہے؟  جب کہ دولہا اوردولہن گواہوں کے سامنے ایک ہی مجلس میں حاضر ہوں اور دولہن نے منہ پر پردہ کیا ہوا ہو؟

جواب

دلہا اور دلہن میں سے جو بھی مجلسِ نکاح میں موجود ہو اور خود ایجاب و قبول کرے یا اس کا وکیل اس کی طرف اشارہ کر کے ایجاب و قبول کرے تو اس صورت میں گواہوں کے لیے ان کا نام اور ولدیت جاننا ضروری نہیں، یعنی مجلسِ عقد میں ان کا نام لینا ضروری نہیں۔
 دلہا اور دلہن میں سے جو بھی مجلسِ عقد میں موجود نہ ہو  یا موجود ہو لیکن نہ تو خود ایجاب و قبول کرے اور نہ ہی ان کی طرف اشارہ کر کے ایجاب و قبول کیا جائے تو اس صورت میں اگر نکاح کے گواہ ان کو پہلے سے جانتے ہوں تو نکاح کے وقت گواہان کے سامنے صرف ان کا نام لینا بھی کافی ہے ، لیکن اگر گواہان ان دونوں کو پہلے سے نہیں جانتے ہوں تو پھر مجلسِ نکاح میں ان کا نام اور  ان کے والد اور دادا کا نام لینا بھی ضروری ہوگا، ورنہ نکاح درست نہیں ہوگا۔
اجنبی آدمی جو دولہا اور دلہن کو نہ جانتاہو وہ بھی گواہ بن سکتا ہے، البتہ اس کے لیے بھی وہی تفصیل ہے جو ماقبل میں گزری۔

جب دولہا اوردولہن گواہوں کے سامنے ایک ہی مجلس میں حاضر ہوں اور دولہن نے منہ پر پردہ کیا ہوا ہو اور ا س دلہن کی طرف اشارہ کیا جائے  یا اس کا نام اور والد اور دادا کا نام ذکر کرکے ایجاب و قبول کیا جائے تو بھی نکاح درست ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں