بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کا مسنون طریقہ


سوال

1 - شادی کی تقریب کا اسلامی طریقے کیا ہے؟

2۔ کن اسلامی ماہ یا تاریخوں میں نکاح کرنا صحیح ہے؟

3  - تمام کام و معاملات سہل اور عزت کےساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ پورے ہونے کے لیے وظیفہ بھی بتادیں۔

جواب

1. نکاح کا مسنون طریقہ درج ذیل ہے:

فتاوی قاسمیہ میں ہے:

’’جس شخص کا ارادہ نکاح کاہو اس کو اولاً چاہیے  کہ کسی دِین دار گھرانے کی دِین دار لڑکی کا انتخاب کرے اور پھر اس کے گھر والوں سے مل کر معاملہ کو پکا کرلے، پھر انتہائی سادگی سے مسجد میں مسجد کے آداب واحترام کا خیال رکھتے ہوئے نکاح کی تقریب منعقد کی جائے اور اپنی وسعت کے مطابق مہر مقرر کرے اور یہ کوشش کرے کہ بیوی سے پہلی ملاقات ہونے سے پہلے مہر ادا کردے، اور نکاح کے بعد جب بیوی کی رخصتی ہوجائے اور شبِ زفاف بھی گزر جائے تو اب مسنون طریقہ پر ولیمہ کرے، اس میں نام ونمود کی نیت نہ ہو، محض اتباعِ سنت مقصود ہو۔ اور اس سلسلہ میں رسوم ورواج سے کلی طور پر بچنے کی کوشش کریں اور یہ خیال رہے کہ شادی جتنی سادگی کے ساتھ کی جائے گی، اس میں اتنی زیادہ خیر وبرکت ہوگی۔ (مستفاد: انوار نبوت ص: ۶۱۷-۷۱۲)

"عن أبي هریرة -رضي اﷲ عنه- عن النبي صلی اﷲ علیه وسلم قال: تنکح المرأة لأربع : لمالها، ولحسبها، ولجمالها، ولدینها، فاظفر بذات الدین تربت یداك".  (صحیح البخاري، کتاب النکاح، باب الأکفاء في الدین، النسخة الهندیة ۲/ ۷۶۲، رقم: ۴۸۹۹، ف: ۵۰۹۰، الصحیح لمسلم، کتاب الرضاع، باب استحباب نکاح ذات الدین، النسخة الهندیة ۱/ ۴۷۴، بیت الأفکار، رقم: ۱۴۶۶)

"عن عائشة -رضي اﷲ عنها- قال النبي ﷺ: إن أعظم النکاح برکةً أیسره مؤونةً". (شعب الإیمان، باب الاقتصاد في النفقة وتحریم أکل المال الباطل، دارالکتب العلمیة بیروت ۵/ ۲۵۴، رقم: ۶۵۶۶، مشکاة المصابیح، ۲/ ۲۶۸) ( ١٢ / ٤٩٣)

آپ کے مسائل اور ان کا حل از مفتی یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ میں ہے:

’’نکاح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ خاندان کے چند شرفاء حضرات کو بلا کر دو گواہوں کے سامنے سادگی کے ساتھ نکاح کیا جائے اور مروجہ رسم ورواج اور غیر شرعی چیزوں کو بالکل چھوڑ دیا جائے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے کہ جس میں خرچ کم ہو۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ۵/ ۲۸۰)

عن عائشة -رضي اﷲ عنها- أن رسول اﷲ ﷺ قال: إن أعظم النکاح برکةً أیسره مؤنةً‘‘. (مسند أحمد بن حنبل ۶/ ۸۲، رقم: ۲۵۰۳۴، مسند أبي داؤد الطیالسي، دارالکتب العلمیة بیروت ۲/ ۱۷۸، رقم: ۱۵۳۰)

2۔ شریعتِ مطہرہ نے کسی خاص مہینے یا  دن کو  انعقادِ نکاح کے لیے نہ ہی خاص کیا ہے اور نہ ہی کسی مہینہ یا دن میں نکاح نہ کرنے کا پابند کیا ہے، محرم، صفر اور شوال تمام مہینوں اور ہر دن میں نکاح کیا جاسکتاہے، ان تمام معاملات کو فریقین کے باہمی اتفاق پر منحصر رکھا ہے، لہذا دونوں گھرانے اپنی سہولت سے کسی بھی مہینے کے کسی بھی دن کا انعقاد نکاح کے لیے مختص کر سکتے ہیں، جمعے کے دن مسجدِ جامع میں ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

3۔ درج ذیل دعا کا اہتمام کریں:

"حَسْبُنَا الله وَ نِعْمَ الْوَكِيْل نِعْمَ الْمَوْلَي وَ نِعْمَ النَّصِيْر". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں