بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں شوہر کی فجر کی نماز کی پابندی کو مہر بنانا


سوال

ایک خاتون نے اپنے نکاح میں مہر  شوہر سے فجر کی پابندی مانگی ہے،  تو کیا ایسا کرنا کہاں تک صحیح ہے ؟

جواب

مہر کے لیے مالِ متقوم (یعنی وہ چیز جس کا قیمت والا مال ہونا شرع اور عرف میں مسلم ہو) کا ہونا ضروری ہے،  اور اس کی کم از کم مقدار دس درہم  ہے، قرآن مجید میں ہے :

{وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ } [النساء: 24]

ترجمہ : اور ان (عورتوں) کے سوا ( اور عورتیں) تمہارے  لیے حلال کی گئیں ہیں (یعنی یہ) کہ تم ان کو اپنے مالوں کے ذریعہ سے چاہو ۔  (از بیان القرآن)

جب کہ نماز کی پابندی شرعاً مال نہیں ہے، لہذا اس میں مہر بننے کی صلاحیت نہیں ہے،  اگر نکاح میں اس کو مہر رکھ دیا تو نکاح تو ہوجائے گا،  لیکن شوہر پر عورت کا مہر مثل لازم ہوگا، (یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، بکارت، ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس کا بھی اتنا مہر  ہوگا)۔

البتہ مہر کے تقرر کے ساتھ ساتھ  نکاح کے لیے شوہر سے نمازِ فجر کی پابندی کا وعدہ لیا جاسکتا ہے، اور مرد پر ویسے بھی فجر کی نماز فرض ہے،  بیوی کہے یا نہ کہے بہر صورت اس کا پڑھنا ضروری ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی باز پرس ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 101):
"(أقله عشرة دراهم)؛ لحديث البيهقي وغيره: «لا مهر أقل من عشرة دراهم»، ورواية الأقل تحمل على المعجل. 

(قوله: لحديث البيهقي وغيره) رواه البيهقي بسند ضعيف، رواه ابن أبي حاتم، وقال الحافظ ابن حجر: إنه بهذا الإسناد حسن، كما في فتح القدير في باب الكفاءة (قوله: ورواية الأقل إلخ) أي ما يدل بحسب الظاهر من الأحاديث المروية على مجاز التقدير بأقل على عشرة، وكلها مضعفة إلا حديث: «التمس ولو خاتماً من حديد»، يجب حملها على أنه المعجل، وذلك لأن العادة عندهم تعجيل بعض المهر قبل الدخول، حتى ذهب بعض العلماء إلى أنه لايدخل بها حتى يقدم شيئاً لها تمسكاً «بمنعه صلى الله عليه وسلم علياً أن يدخل بفاطمة - رضي الله عنها - حتى يعطيها شيئاً، فقال: يا رسول الله ليس لي شيء، فقال أعطها درعك، فأعطاها درعه». رواه أبو داود والنسائي، ومعلوم أن الصداق كان أربعمائة درهم وهي فضة، لكن المختار الجواز قبله؛ لما روت «عائشة -رضي الله تعالى عنها- قالت: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أدخل امرأةً على زوجها قبل أن يعطيها شيئاً» رواه أبو داود؛ فيحمل المنع المذكور على الندب: أي ندب تقديم شيء إدخالاً للمسرة عليها تألفاً لقلبها، وإذا كان ذلك معهوداً وجب حمل ما خالف ما رويناه عليه جمعاً بين الأحاديث.
وهذا وإن قيل: إنه خلاف الظاهر في حديث: «التمس ولو خاتماً من حديد»، لكن يجب المصير إليه؛ لأنه قال فيه بعده: زوجتكها بما معك من القرآن، فإن حمل على تعليمه إياها ما معه أو نفي المهر بالكلية عارض كتاب الله تعالى وهو قوله تعالى: أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24]،  فقيد الإحلال بالابتغاء بالمال، فوجب كون الخبر غير مخالف له وإلا لم يقبل لأنه خبر واحد، وهو لاينسخ القطعي في الدلالة، وتمام ذلك مبسوط في الفتح". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں