اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے دل میں یہ کہے کہ ’’میں اس کو طلاق دوں گا‘‘ یا دل میں طلاق دیتا ہے اور پھر 5 سال بعد اس لڑکی سے نکاح کرتا ہے اور صحبت بھی کرتا ہے اور پھر شادی کے دو سال بعد یاد آتا ہے. (کوئی مسئلہ پڑھتا ہے جس کی وجہ سےوسوسہ ہوتا ہے) اور شک بھی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں سوچا. مگر یہ الفاظ یعنی منہ سے نہیں کہے تواس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی؛ کیوں کہ طلاق واقع کرنے کے لیے الفاظ کی ادائیگی یا اپنی رضامندی سے لکھ کر طلاق دینا ضروری ہوتاہے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ یا تو وہ لڑکی نکاح میں ہو جسے طلاق دے رہاہے یا نکاح سے پہلے ہو تو نکاح کی طرف اضافت شرط ہے، (مثلاً یوں کہے کہ اگر میں فلاں لڑکی سے نکاح کروں تو اسے طلاق، یا اگر میں فلاں سے نکاح کروں اور وہ لڑکی فلاں کام کرے تو اسے طلاق) ۔ اور یہاں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں پائی جارہی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 230):
"وركنه لفظ مخصوص".
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3 / 126):
"وأما الذي يرجع إلى المرأة فمنها الملك أو علقة من علائقه؛ فلايصح الطلاق إلا في الملك أو في علقة من علائق الملك وهي عدة الطلاق أو مضافاً إلى الملك". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200157
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن