میں نے بہشتی زیور میں پڑھا ہے کہ اگر کوئی غیر عورت سے کہے کہ تم نے اگر ایساکیاتوتمہیں طلاق ،اور پھر اس عورت سے نکاح کرلے اور وہ عورت نکاح کے بعد وہ کام کرے تو طلاق نہیں ہوتی۔اگر کوئی بائنہ عورت سے نکاح سے پہلے ایساہی کہہ دے اور وہ نکاح کے بعد وہ کام کرے تو طلاق ہوگی یانہیں؟
اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت سے کہے کہ "اگر تونے ایساکیاتوتمہیں طلاق ہے"،اور اس بات کی اضافت نکاح کی جانب نہ کرے تویہ گفتگو لغو ہے ،نکاح کے بعد اس کاکوئی اثر نہ ہوگا۔اورنکاح کے بعداگر عورت وہ کام کرتی ہے تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
البتہ کسی شخص نے جس عور ت کو طلاق بائن دی ہو اگر اس سے یہ کہے کہ " تم نے اگر ایساکیاتوتمہیں طلاق " تو یہ تعلیق درست ہے اور اس سے دوبارہ نکاح کی صورت میں شرط کے پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔"فتاویٰ شامی" میں ہے:
'' ( شرط الملك ) حقيقةً كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر، أو حكماً ولو حكما ( كقوله لمنكوحته ) أو معتدته :( إن ذهبت فأنت طالق أو الإضافة إليه ) أي الملك الحقيقي عاماً أو خاصاً كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك ( كإن ) نكحت امرأة أو إن ( نكحتك فأنت طالق )''(3/344)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143812200047
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن