بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح سے ایک دن پہلے ولیمہ کرنے کا حکم


سوال

نکاح سے  ایک دن قبل ولیمہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

ولیمہ کا  کھانا اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو نکاح  اور رخصتی (شب باشی) کے بعد دوسرے دن کھلایا جاتا ہے؛  اس لیے  بہتر اور افضل یہی ہے کہ رخصتی کے بعد میاں بیوی کی ملاقات کے بعد ولیمہ کیا جائے، یہی مسنون ہے، اس لیے اس کا لحاظ کرنا چاہیے۔  باقی   رخصتی کے بعد  ہم بستری سے پہلے ولیمہ کرلینے سے بھی ولیمہ کی سنت ادا ہوجاتی ہے۔ لیکن نکاح سے پہلے ولیمہ کی دعوت کرنے سے ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہوگی۔

         حدیث مبارک میں ہے:

"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري". (مشکاة المصابیح، (2/278)، الفصل الأول، باب الولیمہ، ط: قدیمی)

         فیض الباری میں ہے:

"السنة في الولیمة أن تکون بعد البناء، وطعام ماقبل البناء لایقال له: ولیمة عربیة". (5/534، باب الولیمة حق، ط: دار الکتب العلمیة، 4/300، ط: المکتبة الإسلامیة، شارع کانسی ،کوئٹہ)

      اعلاء السنن میں ہے:

"والمنقول من فعل النبي صلی الله علیه وسلم أنها بعد الدخول، کأنه یشیر إلی قصة زینب  بنت جحش، وقد ترجم علیه البیهقي بعد الدخول، وحدیث أنس  في هذا الباب صریح في أنها  الولیمة بعد الدخول". (ج11/ص12،باب استحباب الولیمة، ط: إدارة القرآن) (بذل المجهود، (4/32) کتاب النکاح ، ط: مکتبه قاسمیه ملتان)

        عمدة القاري میں ہے:

"وقد اختلف السلف في وقتها: هل هو عند العقد أو عقيبه؟ أو عند الدخول أو عقيبه؟ أو موسع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول؟ على أقوال. قال النووي: اختلفوا، فقال عياض: إن الأصح عند المالكية استحبابه بعد الدخول، وعن جماعة منهم: أنها عند العقد، وعند ابن حبيب: عند العقد وبعد الدخول، وقال في موضع آخر: يجوز قبل الدخول وبعده، وقال الماوردي: عند الدخول، وحديث أنس: فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروساً بزينب فدعي القوم، صريح أنها بعد الدخول". (14/112، باب صفرة المتزوج، ط: امدادیه ملتان) 

"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبنی بها، والثالث هو الأولی". (بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، مطبع سهارن پور قدیم۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیة بیروت۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث :۳۷۴۳
"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب". (فقه السنة، دارالکتاب العربي۲/ ۲۱۰)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151):

"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008202033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں