بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح خواں کوئی اور ہو اور نکاح نامہ کسی اور سے بنانا


سوال

کوئی شخص کسی اجتماع یا کسی اللہ والے کی مجلس میں نکاح کرے، اور بعد میں کسی مسجد کے امام سے اپنا نکاح نامہ لکھواۓ جس میں ناکح کے طور پر اصل کا نہیں، بلکہ اسی امام مسجد کا نام اور دستخط کرواۓ تو  کیا اس امام کے لیے ایسا کرنا درست ہے؟ یہ جھوٹ کے زمرے میں آئے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نکاح خواں کے دستخط کی جگہ پر نکاح خواں ہی کا دستخط کرنا ضروری ہے، نکاح خواں کے علاوہ کسی اور کا اس جگہ پر دستخط کرنا جائز نہیں، یہ غلط بیانی کے زمرے میں آتا ہے، ہاں اگر تجدیدِ نکاح کرادے  (یعنی شرعی گواہان کی موجودگی میں مہر کے اعادے کے ساتھ جانبین سے ایجاب و قبول کروالے) پھر گنجائش ہوگی۔

کنز العمال میں ہے:

"ما لي أراكم تتايعون في الكذب كما يتتايع الفراش في النار؟ ابن لال عن أسماء بنت يزيد".

ترجمہ: کیا عجیب بات ہے تم جھوٹ پر ایسے پڑ رہے ہو،  جیسے پروانے آگ میں پڑتے ہیں۔

"مهلًا يا عائشة! أما علمت أن هذا من كذاب الأنامل، أبونعيم عن عائشة، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أفلي رأس أخي عبدالرحمن، وأنا أقصع أظفاري على غير شيء، قال: فذكره".

ترجمہ: عائشہ احتیاط سے کام لو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ انگلیوں کے پوروں کا جھوٹ ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کے سر سے جوئیں تلاش کررہی تھی اور میں ایسے ہی ناخن سے جوئیں مارنے کا انداز اپنا رہی تھی، تو  آپ ﷺ نے میرے اس عمل پر یہ فرمایا۔ (کنز العمال 3/624 مؤسسۃ الرسالۃ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں