بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نومولود کے کان میں اذان سے متعلق حدیث پر اعتراض


سوال

 دنیا بھر کے مسلم معاشروں میں بالعموم نومولود بچوں کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جاتی ہے۔ جسے ایک مشروع دینی عمل اور بچوں کی پیدایش کے موقع پر منجملہ اعمال مسنونہ قرار دیا جاتا ہے- مگرعلمی طریقے پر نبی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کا اپنی پوری زندگی میں اِس پر عمل ثابت ہوتا ہے،نہ مسلمانوں کے لیے اِسے دین میں آپ کی جانب سے مشروع کرنا ہی ثابت ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر واحد کے درجے میں بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ عہد نبوی یا اُس کے بعد کے عہد میں آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم کے اِس اذان واقامت پر عمل کا بھی تاریخ،سیرت اور آثار میں کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ائمۂ اربعہ میں سے باقی ائمۂ ثلاثہ کی کتابیں نومولود کی اذان واقامت کے مسئلے سے بالکل خالی ہیں۔ اِس باب میں اُن سے کوئی براہ راست نص کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ غیر معمولی اہمیت کے حامل مندرجہ ذیل مراجعِ حدیث میں نومولود کی اذان واقامت کی کوئی ایک خبر واحد بھی کہیں نقل نہیں ہوئی ہے: ۱۔ مؤطا امام مالک ب۔ مسند الشافعی ج۔ صحیح بخاری د۔ صحیح مسلم ھ۔ سنن ابن ماجہ و۔ سنن نَسائی مسلمان معاشروں میں اِس عمل کا کوئی ثبوت کہیں نہیں ملتا۔ چنانچہ عبادت کی نوعیت کے اِس عمل کے بارے میں محقق رائے یہی ہے کہ اسے منجملہ بدعات شمار کیا جائے۔ اِس باب کی مرفوع روایات کو اگر متفرق مصادر سے جمع کر لیا جائے تو کتبِ حدیث میں اُن کی کل تعداد چوبیس بنتی ہے۔ جو اپنے مضمون اور متن کے لحاظ سے کل سات روایات ہیں ؛ جن میں سے پانچ فعلی روایات، ایک قولی اور ایک روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے کچھ حدیث یہ ہیں: ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "فاطمہ کے ہاں جب حسن بن علی کی ولادت تو اُس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے حسن کے کان میں نماز والی اذان دیتے ہوئے دیکھا ہے"۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: " حسن اور حسین کی پیدایش کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے کانوں میں اذان دی اور اِس کا حکم فرمایا"۔ رواۃِ صحابہ کے اعتبار سے اِس باب کی تمام روایتوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہے کہ طبقۂ صحابہ میں سے محض تین صحابہ یعنی سیدنا عبد اللہ بن عباس ، حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہم ہی ہیں ،جن سے اصلاً یہ تمام روایات نقل ہوئی ہیں اور جن کے سوا باقی صحابہ کرام سے اِس باب میں کچھ نقل نہیں ہوا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ علمائے محدثین کی تحقیق کے مطابق یہ تمام کی تمام احادیث،ضعیف اور موضوع روایات کا مجموعہ ہیں۔ اِن میں سے کوئی ایک روایت بھی صحتِ سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ علمائے محققین کے نزدیک اِن روایتوں کے ناقابل اعتبار ہونے کی بنا پر اِن سے نومولود کے کانوں میں اذان و اقامت کا عمل اور اُس کی مشروعیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہوتی۔

جناب والا سے گذارش ہے کہ مندرجہ بالا تحریر کی شرعی حیثیت کے بارے میں راہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب

اس بات کا ایک جواب تو خود صاحب تحریر نے دے دیا ہے کہ پورے مسلم معاشرے میں یہ عمل ایک دینی عمل اور من جملہ مسنون اعمال میں شمار کیا جاتا ہے ، اس سے صاف واضح ہے کہ یہ عمل تواتر عملی سے ثابت ہے ، جس طرح سے بعض دیگر اعمال، تواتر عملی سے ثابت ہیں اسی طرح یہ عمل بھی اتنا متوارث ہے کہ اس کے لیے اگر کوئی دلیل الگ سے  موجود نہ بھی ہوتی تو اس کی سنیت کے لیے یہ توارث  ہی کافی تھا ۔

اور رہی بات یہ کہ اتنا مشہور عمل اورموطا مالک ، مسند شافعی ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن ابن ماجہ ، سنن نسائی میں موجود نہیں ہے ، ہماری دانست میں یہ اتنی عجیب بات ہے کہ اس کی قباحت کو ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ، کیونکہ دین کا یہ اصول نہ جانے کس نے وضع کیا ہے کہ دین کا جو مسئلہ کسی ایک یا چند متعین اور مخصوص کتابوں میں نہ ہو،  وہ ثابت نہیں ہوگا ؟ !

تعجب کی بات یہ ہے کہ تین صحابہ سے منقول ہونے کے باوجود یہ لکھا گیا ہے کہ صرف تین صحابہ سے منقول ہے ، اس کا مطلب مضمون نگار کے نزدیک کسی چیز کے سنت یا استحباب کے لیے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ سے منقول ہونا ضروری ہے، اس خود ساختہ اصول کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ 

بظاہر مضمون نگار کی تحریر سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ  وہ سنت ، مستحب وغیرہ کے ثبوت کے لیے بھی فرض جیسے دلائل چاہتے ہیں ، جو کسی طرح درست نہیں ہے ؛ کیونکہ اثبات ِاحکام کے دلائل مختلف  ہوتے ہیں اور ان دلائل کے فرق کی وجہ سے حکم کا درجہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ جہاں تک اذان کا تعلق ہے تو اس کی فرضیت کا کوئی بھی قائل نہیں ہے ، بلکہ اس کے استحباب  یا زیادہ سے زیادہ سنیت کے قائل ہیں اور اس کے لیے قطعیت کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ 

بچے کے کان میں پیدائش کے بعد اذان دینے کے بارے میں  حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے  کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی  تو میں نے  نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو  ان (یعنی حضرت حسن رضي الله عنہ) کے  کان میں نماز والی  اذان دیتے ہوئے دیکھا۔

"روى الحاكم، وابو داؤد، والترمذي  واللفظ للترمذي:حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، وعبد الرحمن بن مهدي، قالا: أخبرنا سفيان، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبيد الله بن أبي رافع، عن أبيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة".

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی( 279ھ) نے اس حدیث پر" حسن صحیح "کا حکم لگایا ہے، مزید براں  اس پر امت کا عمل بھی رہا ہے، چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

هذا حديث حسن صحيح والعمل عليه.

(سنن الترمذي، أبواب الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود، رقم الحديث: 1514، 3: 149، دار الغرب الإسلامي بيروت)

اسی طرح اس  روايت كو امام ابو داؤد رحمہ اللہ تعالی( 275ھ)  اپنی "السنن" ميں،اور امام حاکم رحمہ اللہ تعالی (405ھ)  "المستدرك"  میں، اور علامہ بیہقی رحمہ اللہ تعالی ( 458ھ) "السنن الكبرى" ميں لائے ہیں۔

اور امام حاکم نے اسے " صحیح الاسناد" قرار دیا ہے، جبکہ امام ابو داؤد نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے ۔

(كتاب الأدب باب في الصبي يولد فيؤذن في أذنه، رقم الحديث: 5105، المكتبة العصرية، بيروت) 

(المستدرک للحاكم، أول فضائل أبي عبد الله الحسين بن علي، الرقم: 4827، 3:  179، دار الكتب العلمية، ط: الأولى، 1411ھ)

(السنن الكبری للبیہقی، باب ما جاء في التأذين في أذن الصبي حين يولد، الرقم: 19303، 9: 513،دار الكتب العلمية، ط: الثالثة، 1424ھ)

اس روایت میں" عاصم بن عبید اللہ" راوی ضعیف ہے، لیکن متعدد وجوہ سے اس روایت کو تقویت حاصل ہے،  اور انہی وجوہ کی بنا پر ان ائمہ  محدثین نے  اس روایت کو حسن کہا ہے، اور زمانہ قدیم وجدید ہر دور میں  اس پر امت کا عمل رہا ہے ۔

اس روایت کی  تقویت کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:

شواہد کے ذریعے تقویت:

علامہ ابن قیم  رحمہ اللہ تعالی ( 751ھ) نے اپنے رسالہ "تحفة المودود بأحکام المولود"  میں اس روایت کے علاوہ ،حضرت ابن عباس اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے  مروی دو روایات ذکر کی ہیں، گو ان کی سند میں ضعف ہے، لیکن  ابن القیم رحمہ الله تعالی   جیسے محدث کے ہاں وہ تقویت  کا باعث ہیں۔

(تحفة المودود بأحکام المولود، الباب الرابع: في استحباب التأذين في أذنه اليمنى والإقامة في أذنه اليسرى، ص: 30-33، مکتبۃ دار البیان، دمشق، ط: الأولى، 1391)

اور یہ محدثین کے ہاں تسلیم شدہ اصول ہے کہ اگر شواہد ضعیف بھی ہوں تو بھی وہ روایت کثرت ِشواہد کی بنا پر   روایت، منکر کے درجہ سے ترقی کرکے  ضعفِ خفیف کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے ، اور فضائل واستحباب میں اس پر عمل  درست ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی( 902ھ) لکھتے ہیں:

ولكن بكثرة طرقه - القاصرة عن درجة الاعتبار ; بحيث لا يجبر بعضها ببعض - يرتقي عن مرتبة المردود المنكر الذي لا يجوز العمل به بحال، إلى رتبة الضعيف الذي يجوز العمل به في الفضائل.

(فتح المغيث للسخاوي، أمثلة الحديث الحسن، 1: 97، مكتبة السنة مصر، ط: الأولى، 1424ه)

اور اس میں شبہ نہیں کہ بچے کے کان  میں اذان کا  یہ عمل متعدد  روایات میں منقول ہے جیساکہ خود صاحب تحریر نے بھی اعتراف کیا ہے۔

ابن القیم کے علاوہ  حضرات نے بھی شواہد کی بنا پر اس روایت کی تقویت کا تذکرہ کیا ہے ۔

چنانچہ مشہور اہلِ حدیث عالم  عبدالرحمن  مبارکپوری رحمہ الله تعالی

(1353ھ) "تحفة الأحوذي"میں لکھتے ہیں:

"قلت نعم هو ضعيف لكنه يعتضد بحديث الحسين بن علي رضي الله عنهما الذي رواه أبو يعلي الموصلي وابن السني".

(تحفة الأحوذي للمباركفوري، باب الأذان في أذن المولود، 5: 90، دار الكتب العلمية)

حافظ ابن الملقن رحمہ الله تعالی ( 804ھ)  امام ترمذی،اور امام حاکم کی تصحیح، اور امام ابو داؤد  اور عبد الحق کا سکوت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

فلعله اعتضد عندهما - الإمام الترمذي والإمام حاكم - بطريق آخر فصار صحيحا على أني لم أجد له طريقا غير الطريق المذكورة.

(البدر المنير لابن الملقن، کتاب العقیقة، الحديث العاشر، 9: 348، دار الهجرة، الرياض، ط: الأولى، 1425ه)

یعنی یہاں اس بات کا احتمال  بھی ہے کہ ان ائمہ نے جو  اس حدیث کی تصحیح  کی ہے  تو  ان کے سامنے  اس کا کوئی  صحیح سند والا عاضد ہو، جو  ہمارے سامنے نہ آیا ہو۔

بہر حال مذکورہ بالا شواہد وعواضد سے اس حدیث کو تقویت کا حاصل ہونا خود محدثین  نے بیان کیا ہے۔

تعامل امت اور تلقی  بالقبول کے ذریعے تقویت:

امام ترمذی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :"والعمل علیه" یعنی امت کا اس پر عمل ہے۔

محدث شعیب الارنوؤط اس پر تحریر فرماتے ہیں:

"ومع ضعف الحديث فقد عمل به جمهور الأمة قديمـا وحديثا وهو ما أشار اليه المصنف بقوله والعمل عليه ولعله صححه لذلك وقد اورده أهل العلم في كتبهم وبوبوا عليه واستحبوه".

(تعليقات سنن الترمذي 3/339)

یعنی اس روایت کے ضعف کے باوجود جمہور امت نے قدیم وجدید ہر دور میں اس پر عمل کیا ہے  اور اسی کی جانب مصنف (یعنی امام ترمذی) نے اپنے قول  ’’ والعمل علیه‘‘  سے اشارہ کیا ہے اور شاید اسی وجہ سے اس کو صحیح  قرار دیا ہے  اور اہل علم اس مسئلے کو اپنی کتب میں لائے ہیں  اور اس پر باقاعدہ ابواب قائم کئے ہیں اور اسی مستحب قرار دیا ہے۔

لہذا صاحب تحریر کا یہ کہنا کہ  خیر القرون میں  اس  کا کوئی ثبوت نہیں ملتا درست نہیں۔

نیز شوافع  اور حنابلہ کے ہاں بھی یہ عمل مسنون ہے ۔

چنانچہ علامہ نووی  الشافعی رحمہ اللہ تعالی (676ھ) ’’ المجموع شرح المهذب‘‘ میں فرماتے ہیں :

"السنة أن يؤذن في أذن المولود عند ولادته ذكرا كان أو أنثى، ويكون الأذان بلفظ أذان الصلاة لحديث أبي رافع الذي ذكره المصنف، قال: جماعة من أصحابنا يستحب أن يؤذن في أذنه اليمنى ويقيم الصلاة في أذنه اليسرى".

(المجموع شرح المهذب للنووي، باب العقيقة، 8: 442، دار الفكر)

شیخ بہوتی حنبلي رحمہ الله تعالی( 1051ھ) "كشاف القناع" میں فرماتے ہیں:

"وسن أن يؤذن في أذن المولود اليمني ذكرا  كان أو أنثى حين يولد وأن يقيم في اليسري لحديث أبي رافع".

(كشاف القناع للبهوتي، 6: 449، وزارة العدل في المملكة العربية السعودية، ط: الأولى، 1435)

حاصل کلام:

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ  کی   روایت  مذکورہ بالا عواضد کی موجودگی  میں قابل حجت ہے، اور یہ مسئلہ  بھی استحباب کا ہے  جو  ایسی روایت سے ثابت ہوجاتا ہے  اسی وجہ سے  ہر دور میں امت کا اس پر  عمل رہا ہے اور علماء فقہاء ومحدثین نے اپنی کتب میں  اسے نقل کیا  اور  مستحب  قرار دیا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں