بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نند سے اپنا حق وصول کرنے کے لیے اس کے ترکہ کے حصہ میں سے اپنا حق منہا کرنا


سوال

میری نند نے میرا اور میری دیورانی کا زیور چرا لیا اوراس نے تین سال بعد چوری قبول کرلی اور اس نے کہا کہ میں نقصان بھر دوں گی، اور اس نے اپنا حصہ لینے کے لیے باپ کی جائیداد میں سے سارے بھائیوں کو آپس میں لڑوا دیا, بھائی ایک دوسرے کی جان لینے کی باتیں کرتے ہیں,  میں اور میری دیورانی تقاضا  کر رہےہیں کہ اس کے حصہ میں سے ہمارے زیور کا نقصان دیا جائے کہ جس طرح اس نے ہمارے اعتبار کو توڑا ہے اور ہمیں نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح اس نے حصّے کے لیے ہمارے گھر کا شیرازہ بکھیر دیا،  اسی کی وجہ سے گھر بک رہا ہے، بھائی الگ الگ ہو رہے ہیں،  ابھی بھائی اتنے  مستحکم نہیں ہیں  کہ الگ الگ گھر لے سکتے، اور ایک دفعہ پھر اسے حصہ مل گیا تو زندگی بھر ہمیں زیور کے پیسے نہیں دے گی،  سب اس کی فطرت جانتے ہیں۔  میری راہ نمائی فرمائیں کیا ہم اس کی حصے میں سے اگرزیور کے پیسے لیتے ہیں توجائز ہوگا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعۃً  آپ کی نند نے آپ کا زیور  چوری کیا تھا، اور وہ اس کا اعتراف بھی کرچکی ہے، اور اس کی ادائیگی کی حامی بھی بھرلی تھی، لیکن ا ب ٹال مٹول کررہی ہے تو آپ اور آپ کی دیورانی کے لیے اپنے حق کے بقدر  کسی بھی طرح اس سے  وصول کرنے کی گنجائش ہے، لہذا اس کے حصے میں سے وہ رقم منہا کی جاسکتی ہے، تاہم اس بات کا خیال رہے کہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 95):
"وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس للمجانسة في المالية. قال في المجتبى وهو أوسع فيعمل به عند الضرورة.
(قوله: وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفاً. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع، فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة، كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا: إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري: أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق، والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان، لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق:
عفاء على هذا الزمان فإنه ... زمان عقوق لا زمان حقوق
وكل رفيق فيه غير مرافق ... وكل صديق فيه غير صدوق". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں