بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے علاوہ عام حالات میں ٹخنے ڈھانپنے کا حکم


سوال

شلوار  یا  پینٹ ٹخنوں کے اوپر ہونا چاہیے، اور ایسا کرنا واجب ہے۔ کیا یہ حکم صرف نماز کی حد تک درست ہے یا روزمرہ زندگی میں بھی  کیا ایسا کرنا لازم ہے ؟

جواب

یاد رہے کہ شلوار کے پائنچے  ٹخنوں سے نیچے رکھنا  بقصدِ تکبر حرام ہے، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے، اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو  معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا یا شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے، یہ ہر گز جائز نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور جب یہ فعل ہی متکبرین کی علامت ہے  تو پھر یہ کہہ کر ٹخنوں کو چھپانا کہ نیت میں تکبر نہیں تھا ، شرعاً درست نہیں ہے۔

 اور ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے، یہ حکم فقط نماز کے ساتھ مخصوص نہیں، البتہ نماز میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے،  لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں  نماز شروع کرنے سے پہلے  شلوار پینٹ وغیرہ کو اوپر یا نیچے کی طرف سے موڑ لینے سے کم ازکم اس گناہ سے نجات مل جائے گی جو شلوار وغیرہ کو نماز کے اندر ایسے ہی چھوڑ دینے سے جو گناہ ہوتا، اور نماز کے دوران شلوار وغیرہ کو ایک ہاتھ سے ایک ہی دفعہ موڑ لینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، البتہ دورانِ نماز جھک کر پینٹ یا شلوار وغیرہ پائنتی کی جانب  سے موڑلینا عمل کثیر ہے، جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

بہتر یہ ہے کہ مرد ہر وقت ایسا لباس پہنے جس میں ٹخنے کھلے رہیں اور انہیں نیچے کی طرف سے موڑنا ہی نہ پڑے۔

"إن الله  تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل".  (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب ماجاء في ٖسبال الإزار، النسخة الهندیة۲/۵۶۵، بیت الأفکار رقم:۴۰۸۶)

"عن أبي هریرة، قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم: ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار". (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹)

"عن أبي ذر، عن النبي صلی الله  علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة، المنان الذيلایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره". (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم  إسبال الإزار، النسخة الهندیة ۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:۱۰۶) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں