بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے دوران موبائل بند یا خاموش کرنا


سوال

اگر درمیانِ نماز میں موبائل میں کال آگئی اور نمازی نے درمیانِ نماز میں ہی موبائل سائلنٹ کر دیا یا سوئچ آف کر دیا تو کیا نماز میں کوئی فرق پڑےگا؟

جواب

نماز کے دوران عملِ  کثیر کا ارتکاب کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، عملِ کثیر  کی تعریف میں فقہاءِ کرام کے متعدد اقوال ہیں، مفتیٰ بہ اور راجح قول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے  کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا، جس کام کی ایسی کیفیت نہ ہو وہ عملِ قلیل ہے اور عملِ قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی، چنانچہ نماز کے دوران ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر  مختصر وقت میں اسکرین دیکھنے اور  گھنٹی بند کردینے سےنماز فاسد تو نہیں ہوتی، البتہ نماز میں کراہت آجاتی ہے، لیکن اگر  دونوں ہاتھوں سے موبائل پکڑا،  یا ایک ہاتھ سے ایسے انداز میں پکڑ کر اسکرین کو دیکھا  کہ دور سے  دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص  نماز  نہیں پڑھ رہا ہے تو نماز فاسد ہوجائے گی، اس لیے  نماز سے پہلے ہی موبائل کی گھنٹی بند کردینی چاہیے؛ تاکہ نماز میں خلل نہ ہو، لیکن اگر بھول سے گھنٹی بند کرنا بھول گیا اور نماز میں گھنٹی بجنے لگی تو ایک ہاتھ جیب میں ڈال کر گھنٹی کو بند کردے، موبائل نکالنا اور اسے دیکھنا درست نہیں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ عملِ قلیل کے ذریعے موبائل کو خاموش وضع پر کردیا جائے، اگر سوئچ آف کرنے میں عملِ کثیر نہ ہو تو اس کی بھی اجازت ہوگی، البتہ اس میں غالب امکان عملِ کثیر کے وقوع کا ہے؛ اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔

فتاوی بینات میں ہے:

"جب نماز کے لیے مسجد میں آئیں تو مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی موبائل فون یا کم از کم اس کی گھنٹی بند کردینا چاہیے اور اس کو اپنی روز مرہ کی عادت بنا لینا چاہیے،  لیکن اگر بتقاضائے بشریت موبائل فون بند کرنا بھول جائے اور ایسی صورت میں دورانِ نماز موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگے تو اس کے کسی بٹن کو دبا کر اسے بند کردیا جائے، اگر دائیں جیب میں موبائل ہو تو دائیں ہاتھ سے اور اگر بائیں جیب میں ہو تو بائیں ہاتھ سے بند کیا جائے، اس طرح کرنے سے نہ تو عمل کثیر لازم آتا ہے اور نہ ہی نماز فاسد ہوتی ہے۔

ہاں اگر کوئی موبائل فون اپنی جیب سے نکال کر پھر بند کرے یا بار بار گھنٹی آنے کی صورت میں وہ موبائل فون بار بار بند کرتا رہے تو اگر ایک رکن میں تین دفعہ یہ عمل دھرایا گیا تو بعض فقہاء کے نزدیک یہ عملِ کثیر کے زمرے میں آئے گا جس سے نماز فاسد ہوجائےگی۔" (۲/ ۴۰۶، مکتبہ بینات)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 624):

"(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں