بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف رخ کرنا


سوال

فجر اور عصر کی نماز کے بعد امام مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر کے بیٹھتا ہے, اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

داہنی طرف رخ کر کے بیٹھنا اولیٰ ہے،  مگر اس پر مداومت نہ کرے،  گاہے بائیں طرف بھی مڑ کر بیٹھے؛ تاکہ لوگ داہنی طرف رُخ کر کے بیٹھنے کو ضروری نہ سمجھ لیں، اور سامنے (بلاحائل) کوئی مقتدی نماز نہ پڑھ رہا ہو تو مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا بھی جائز ہے۔ حضور ﷺ  سے یہ بھی ثابت ہے۔ نیز  درج ذیل روایات سے معلوم ہوتاہے کہ فجر یا عصر کے علاوہ دیگر نمازوں میں بھی امام بوقتِ ضرورت مقتدیوں کی طرف رخ کرکے بیان وغیرہ بات کرسکتاہے۔

یعنی رسول اللہ ﷺ کامعمول فجر اور عصر کی نماز میں تو مقتدیوں کی طرف رُخ کرکے بیٹھنے کا تھا، لیکن ان دونمازوں کے علاوہ دیگر نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کا معمول مقتدیوں کی طرف رُخ کرکے بیٹھنے یا بیان کرنے کا نہیں تھا، تاہم بوقتِ ضرورت آپ ﷺ سے ثابت ہے۔ دیگر نمازوں (ظہر، مغرب اور عشاء) میں سنت یہی ہے کہ فرض اور سنتِ مؤکدہ کے درمیان ثابت شدہ دعاء یا بہت مختصر ذکر کے علاوہ فاصلہ نہ کرے۔ 
مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن سمرة بن جندب رضي اﷲ عنه قال: کان رسول اﷲ ﷺ إذا صلی صلاةً أقبل علینا بوجهه. رواه البخاري.

عن البراء قال: کنا إذا صلّینا خلف رسول اﷲ ﷺ أحببنا أن نکون عن یمینه؛ یقبل علینا بوجهه. قال: فسمعته یقول: "ربّ قني عذابك یوم تبعث أو تجمع عبادك". رواه مسلم. (مشکاةالمصابيح، باب الدعآء في التشهد، ص ۸۷)

ترجمہ: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھا لیتے تھے تو ہماری طرف رُخ فرمالیتے تھے۔

حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرتے تو ہم چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کی دائیں جانب کھڑے ہوں؛ تاکہ (نماز کے بعد) آپ ﷺ ہماری طرف رُخ فرمائیں۔ چناں چہ (ایک مرتبہ) میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا: "ربّ قني عذابك یوم تبعث عبادك"یا "ربّ قني عذابك یوم تجمع عبادك".

صحيح البخاري (1/ 169):
"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَلَمَّا صَلَّى أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَرَقَدُوا، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَةَ»".

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک رات رسول اللہ ﷺ نے نمازِ عشاء مؤخر کی، پھر تشریف لائے، نماز پڑھا کر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : لوگ نماز پڑھ  کر سوچکے، اور تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے، نماز ہی میں رہے۔

آپ ﷺنمازِ فجر کے بعد ذکر فرماتے۔ اور اس کے بعد نبی ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رات دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر بھی بتاتے،  لوگوں سے باقاعدہ پوچھتے:«هَلْ رَأٰی أَحَدٌ مِّنْکُمُ اللَّیْلَةَ رُؤْیَةً» 

’’کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے‘‘؟

رسول اکرمﷺنے اگر کوئی خواب دیکھا ہوتا تو آپ وہ بھی بیان فرماتے جیسا کہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں آپﷺکے ایک خواب کا تفصیلی ذکر ہے جو نمازِ فجر کے بعد آپ ﷺ نے بیان فرمایا تھا۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر یہ باب قائم کیا ہے: ’’صبح کی نماز کے بعد خواب کی تعبیر بیان کرنا۔ ‘‘صحیح بخاری: 599۔

نیز نمازِ فجر کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خواب کے علاوہ دیگر مسائل بھی پوچھتے تھے، اور اگر پھلوں کے پکنے کا موسم ہوتا تو نئے پھل رسول اللہ ﷺ سے برکت کے حصول کے لیے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش فرماتے، آپ ﷺ برکت کی دعا دیتے اور مجلس میں کوئی بچہ ہوتا تو اس بچے کو پہلا پھل پیش فرماتے۔ عام دنوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیگر چیزیں بھی برکت کے لیے صبح صبح حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجتے تھے، بعض اوقات پانی ہی بھیج دیتے، اور رسول اللہ ﷺ اپنے دست مبارک اس میں ڈال کر (انہیں برکت دیتے، گو موسمِ سرما ہو) وہ پانی انہیں عنایت فرماتے۔ آپ ﷺ سے نمازِ فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اپنے مصلے پر چار زانو تشریف فرما ہونا اور اس دوران صحابہ کرام کا آپ ﷺ سے مختلف امور پر گفتگو فرمانا بھی روایات میں منقول ہے۔

صحيح البخاري (1/ 168):
"عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَقْبَلَ [ص:169] عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ»".

مراقی الفلاح میں ہے

"وعقب الفرض إن لم یکن بعده نافلة یستقبل (الناس) إن شاء إن لم یکن في مقابلة مصل؛ لما في الصحیحین "کان النبي ﷺ إذا صلی أقبل علینا بوجهه"، وإن شاء الإمام انحرف عن یساره جعل القبلة عن یمینه وإن شاء انحرف عن یمینه وجعل القبلة عن یساره، وهذا أولی؛ لما في مسلم: "کنا إذا صلّینا خلف رسول اﷲ ﷺ أحببنا أن نکون عن یمینه حتی یقبل علینا بوجهه…" الخ (مراقی الفلاح مع طحطاوی ص ۱۷۱) (رحیمیہ 6-54) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں