بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں آپ ﷺ کی قراءت اور نماز کی مسنون قراءت کی مقدار


سوال

 نماز کی سنتوں میں سے ایک یہ ہے کہ" سنت کے موافق قراءت کرنا"ہے۔اس سلسلے میں تفصیل مل سکتی ہے کہ کس دن کی کس نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون کون سی سورت تلاوت فرمائی ہے؟

جواب

نماز میں قراءت کی مسنون مقدار سے متعلق یہ تفصیل ہے کہ :

(۱) اور اگر نمازی مقیم ہواور وقت میں بھی گنجائش ہو تو اس کے لیے مسنون  یہ ہے کہ  فجر وظہر  کی نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں میں طوالِ مفصل،   عصر  اور عشاء کی نماز میں میں اوساطِ مفصل اور  مغرب کی نماز  میں قصارِ مفصل پڑھے۔

(2)  اگر نماز ی سفر میں ہو اور سفر جاری ہو تو سورۂ فاتحہ کے بعد حسبِ سہولت جو سورت  پڑھنا چاہے پڑھے، خواہ وہ  مختصر سے  مختصر کیوں نہ ہو اور خواہ وہ کوئی سی نماز کیو ں نہ ہو۔

(3)  اگر نمازی مسافر ہو؛ لیکن کسی جگہ اطمینان کے ساتھ ٹھہرا ہوا  ہو تو نماز فجر وظہر میں  طوال مفصل  میں سے چھوٹی سورتیں، نماز عصر وعشاء میں اوساطِ مفصل کی چھوٹی سورتیں اور نماز مغرب میں قصارِ مفصل کی چھوٹی سے چھوٹی سورتیں پڑھنا مستحب ہے۔

     طوالِ مفصل سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک کی سورتوں کو کہا جاتا ہے، جب کہ سورۂ طارق سے سورۂ لم یکن تک اوساطِ مفصل، اور سورۂ زلزال سے آخر قرآن تک کی سورتیں قصارِ مفصل کہلاتی ہیں۔

فقہاء کرام نے آپ ﷺ کی نمازوں میں قراءت سے متعلق مختلف احادیث کی روشنی میں  پنج وقتی نمازوں میں قراءت کی مسنون مقدار یہ نقل کی ہے، اس کے علاوہ مختلف مواقع پر آپ ﷺ کا مختلف سورتوں کے پڑھنے کا معمول بھی رہا ہے، اور بعض مواقع پر بعض سورتوں کی فضیلت بھی وارد ہے ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :

 حضرت ابوہریرہ  ؓ فرماتے ہیں کہ آپ  ﷺ جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں الم تنزیل (حم سجدہ) اور دوسری رکعت میں ھل اتی على الانسان(سورۂ دھر) پڑھتے تھے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقْرَأ فِي الْفجْر يَوْم الْجُمُعَة ب (الم تَنْزِيلُ) فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى وَفِي الثَّانِيَةِ (هَل أَتَى على الْإِنْسَان)."

(مشكاة المصابيح (1/ 266)

 حضرت عبیداللہ ابن رافع  ؓ  فرماتے ہیں کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ  ؓ  کو مدینہ میں خلیفہ (یعنی اپنا قائم مقام گورنر) مقرر کیا اور خود مکہ چلا گیا،  چنانچہ (اس کی عدم موجودگی میں) حضرت ابوہریرہ  ؓ  نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی اور انہوں نے پہلی رکعت میں سورۂ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورۃ المنافقون پڑھی اور فرمایا کہ میں نے آپ ﷺ کو جمعہ کے روز (یعنی نماز جمعہ) ان دونوں سورتوں کو پڑھتے ہوئے سنا ہے۔" (صحیح مسلم)

"وَعَن عبيد الله بن أبي رَافع قَالَ: اسْتَخْلَفَ مَرْوَانُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَلَى الْمَدِينَةِ وَخَرَجَ إِلَى مَكَّةَ فَصَلَّى لَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْجُمُعَةَ فَقَرَأَ سُورَةَ (الْجُمُعَةِ) فِي السَّجْدَةِ الْأُولَى وَفِي الْآخِرَة: (إِذا جَاءَك المُنَافِقُونَ) فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقْرَأ بهما يَوْم الْجُمُعَة. رَوَاهُ مُسلم."

(مشكاة المصابيح (1/ 266)

حضرت نعمان بن بشیر  ؓ  فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ عیدین و جمعہ کی نماز میں سبح اسم ربك الاعلى  (سورۃ الاعلی)اور  هل اتاك حدیث الغاشیة(سورۃ الغاشیہ)(یہ سورتیں) پڑھا کرتے تھے۔ اور حضرت نعمان فرماتے ہیں کہ " جب عید اور جمعہ ایک دن جمع ہو جاتے تو آپ ﷺ (عید و جمعہ میں) کی دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں پڑھتے تھے۔ " (صحیح مسلم)

"وَ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَفِي الْجُمُعَةِ بِ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) و (هَل أَتَاك حَدِيث الغاشية) قَالَ: وَإِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدُ وَالْجُمُعَةُ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ قَرَأَ بِهِمَا فِي الصَّلَاتَيْنِ. رَوَاهُ مُسلمَ"

(مشكاة المصابيح (1/ 266)

حضرت جابر ابن سمرہ  ؓ  فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ شبِ جمعہ  کی مغرب کی نماز میں سورۂ کافرون  اور سورۂ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔

"وَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ: (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ) و (قل هُوَ الله أحد) رَوَاهُ فِي شرح السّنة."

(مشكاة المصابيح (1/ 268)

اور حضرت سلیمان ابن یسار رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ  ؓ  فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی آدمی کے پیچھے آپ  ﷺ کی نماز کے مشابہ نماز نہیں پڑھی مگر فلاں آدمی کے پیچھے سلیمان فرماتے ہیں کہ میں نے بھی اس آدمی کے پیچھے نماز پڑھی ہے ۔ وہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں کو طویل پڑھتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں کو ہلکی پڑھتے تھے، عصر کی نماز میں تخفیف کرتے تھے۔ مغرب کی نماز میں قصار مفصل اور عشاء میں اوساط مفصل اور فجر کی نماز میں طوال مفصل پڑھا کرتے تھے۔  (سنن نسائی )

"وَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَحَدٍ أَشْبَهَ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فلَان. قَالَ سُلَيْمَان: صَلَّيْتُ خَلْفَهُ فَكَانَ يُطِيلُ الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الظّهْر ويخفف الْأُخْرَيَيْنِ ويخفف الْعَصْر وَيَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَيَقْرَأُ فِي الْعِشَاءِ بِوَسَطِ الْمُفَصَّلِ وَيَقْرَأُ فِي الصُّبْحِ بِطِوَالِ الْمُفَصَّلِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَرَوَى ابْنُ مَاجَهْ إِلَى ويخفف الْعَصْر."

(مشكاة المصابيح (1/ 269)

 حضرت عبدالعزیز بن جریج فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ   ؓسے    پوچھا کہ سرور کونین ﷺ وتر میں کون کون سے سورتیں پڑھا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ " آپ ﷺ پہلی رکعت میں(سَبِّحِ اسْم رَبك الْأَعْلَى)  دوسری رکعت میں(قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ)  اور تیسری رکعت میں (قُلْ هُوَ اللَّهُ أحد) اور معوذتین (سورۂ فلق اور سورۂ ناس) پڑھا کرتے تھے۔ (جامع ترمذی وسنن ابوداؤد)

"وَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: سَأَلْنَا عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِ (سَبِّحِ اسْم رَبك الْأَعْلَى)  وَفِي الثَّانِيَةِ بِ (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ) وَفَى الثَّالِثَةِ بِ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أحد) والمعوذتين وَرَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُدَ."

(مشكاة المصابيح (1/ 397)

اس کے علاوہ بھی مختلف نمازوں میں مختلف سورتوں کا پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، یہاں طوالت سے بچنے کے لیے صرف اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 538):

(ويسن في السفر مطلقا) أي حالة قرار أو فرار، كذا أطلق في الجامع الصغير، ورجحه في البحر: 

ورد ما في الهداية وغيرها من التفصيل، ورده في النهر، وحرر أن ما في الهداية هو المحرر (الفاتحة) وجوبا (وأي سورة شاء) وفي الضرورة بقدر الحال (و) يسن (في الحضر)
لإمام ومنفرد، ذكره الحلبي، والناس عنه غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلى آخر البروج (في الفجر والظهر، و) منها إلى آخر - لم يكن - (أوساطه في العصر والعشاء، و) باقية (قصاره في المغرب) أي في كل ركعة سورة مما ذكره الحلبي۔

(قوله: ورجحه في البحر إلخ) اعلم أنه ذكر في الهداية أن المسافر يقرأ بفاتحة الكتاب وأي سورة شاء، ثم قال: وهذا إذا كان على عجلة من السير، فإن كان في أمنة وقرار يقرأ في الفجر نحو سورة البروج وانشقت لأنه يمكنه مراعاة السنة مع التخفيف.
ورده في البحر بأنه لا أصل يعتمد عليه في الرواية والدراية، أما الأول فلأن إطلاق المتون تبعا للجامع الصغير يعم حالة الأمن أيضا، وأما الثاني فلأنه إذا كان على أمن صار كالمقيم، فينبغي أن يراعى السنة والسفر وإن كان مؤثرا في التخفيف لكن التحديد بقدر سورة البروج لا بد له من دليل ولم ينقل ا هـ وهو ملخص من الحلية. وأجاب في النهر بما حاصله أن السنة للمقيم في قراءة الفجر أن تكون من طوال المفصل وأن لا ينقص مقدار الآية المقروءة من حيث العدد عن أربعين آية في الركعتين، بل تكون من أربعين إلى مائة كما سيأتي مع ما لنا فيه من البحث، والمسافر إذا كان في أمنة وقرار وإن كان مثل المقيم لكن للسفر تأثير في التخفيف عنه مطلقا، ولذا يجوز له الفطر وإن كان في أمنة فناسب أن يقرأ نحو سورة البروج والانشقاق مما هو من طوال المفصل وإن لم يبلغ المقدار الخاص، وهذا معنى قول الهداية لإمكان مراعاة السنة مع التخفيف: أي التخفيف بعدم اعتبار العدد الخاص بعد حصول سنة القراءة من طوال المفصل، فليس مراده التحديد بعدد آيات السورتين، بل كونهما من طوال المفصل أي وسنية القراءة في الفجر من طوال المفصل مسلمة لا تحتاج إلى دليل. ثم إن ما في الهداية قد أقره عليه شراحها والزيلعي وغيره وذلك دليل على تقييد إطلاق ما في المتون والجامع اهـ.
أقول: هذا إنما يتم إذا كان قول الهداية يقرأ في الفجر نحو سورة البروج وانشقت معناه أنه يقرأ في الركعتين واحدة منهما لا كلا منهما، وإلا لم يحصل تخفيف من حيث العدد لأن الانشقاق خمس وعشرون آية والبروج اثنان وعشرون، ويؤيد ذلك قول المنية يقرأ سورة البروج أو مثلها فإنه ظاهر في أن المراد قراءة سورة البروج في الركعتين، لكن كون سورة البروج من طوال المفصل كلام ستعرفه، فلذا حمل التخفيف في شرح المنية على جعل الأوسط في الحضر طويلا في السفر، ومثله قول صاحب المجمع في شرحه فيقرأ بأوساط المفصل رعاية للسنة مع التخفيف، وعليه مشى في الشرنبلالية، لكن هذا الحمل لا يناسب ما في الهداية لأن الانشقاق من طوال المفصل.
وقد يقال: إن التخفيف من جهة الاكتفاء بسورة واحدة من المفصل في الركعتين كما اقتضاه ظاهر كلام المنية المذكور لأن السنة في الحضر في كل ركعة سورة تامة كما يأتي تأمل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200772

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں