بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں لفظِ ثنا کہنا اور کلام کرنے اور آواز نکالنے سے نماز کا حکم


سوال

اگر نماز میں ’’سبحانك اللّٰهم‘‘  کہنے سے پہلے لفظ "ثنا" بھی پڑھ لیا جائے تو اس سے نماز تو فاسد نہیں ہوتی؟

2: نماز میں کس قسم کی آواز نکالنے سے نماز فاسد ہو جائے گی؟

جواب

1۔۔ لفظِ  ثنا  چوں کہ عنوان ہے،  ثنا  کا حصہ نہیں ہے، اس لیے  ’’سبحٰنك اللّٰهم ...‘‘ الخ سے پہلے اس کو نہیں پڑھنا چاہیے، البتہ اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔

2۔۔  نماز  کی حالت میں کلام یعنی بات  چیت کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اور کلام سے نماز فاسد ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ کم از کم دو حرف ہوں یا ایک ایسا حرف ہو  جس کا معنی سمجھ آتا ہو، اس کی تفصیل یہ ہے:

(1) نماز میں اگر کسی آدمی کو مخاطب بناکر بات کی جائے تو  نماز فاسد ہوجائے گی خواہ کسی قسم کی بات ہو اور کسی بھی حالت میں ہو۔

(2)  کسی جانور کو مخاطب کرکے بات کرنے سے بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

(3) خود بخود اپنے آپ سے بات کرنا، اس میں اگر  عربی لفظ نہ ہو ، اور  ایسا لفظ نہ ہو جو قرآن مجید میں موجود ہو ،  یا وہ لفظ  اس شخص کا تکیہ کلام ہو تو اس سے نماز فاسد ہوجائے گی۔

(4) ذکر اور دعا کرنا، اگر ذکر اور دعا عربی الفاظ میں نہیں ہے یا عربی الفاظ میں ہے، مگر وہ الفاظ قرآن مجید اور احادیث میں موجود نہیں اور اس کا اللہ کے علاوہ کسی سے طلب کرنا حرام نہیں تو اس سے بھی نماز فاسد ہوجائے گی۔ (مزید تفصیل کے لیے نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا جلد 3، ص 309 تا 313 مطالعہ  کیجیے)

نیز اگر نماز میں بلا ضرورت گلا صاف کرنے کی وجہ سے اگر کم از کم دو حروف پیدا ہوجائیں تو نماز فاسد ہوجائےگی، ہاں اگر ضرورت کی وجہ سے ایسا کیا مثلاًاس غرض سے کھنکھارے کہ آواز صحیح ہوجائے اور قراءت میں حروف اپنے مخارج سے ادا ہوں تو  نماز فاسد نہیں ہوگی۔(شامی 1/618)

اسی طرح نماز میں درد اور رنج کی وجہ سے کراہنے سے اگر آواز ”آہ“ وغیرہ  نکلےیا رونے کی وجہ سے آواز  نکلے جس سے کم از کم دو حرف پیدا ہوجائیں تو نماز فاسد ہوجائے گی، البتہ اگر مریض  مرض کی وجہ سے اس کو روکنے پر قادر نہیں ہے یا جنت یا جہنم کے ذکر پر رونے سے آواز نکلی ہو تو  اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 618،619):
"(والتنحنح) بحرفين (بلا عذر)  أما به بأن نشأ من طبعه فلا (أو) بلا (غرض صحيح) فلو لتحسين صوته أو ليهتدي إمامه أو للإعلام أنه في الصلاة فلا فساد على الصحيح. (والدعاء بما يشبه كلامنا) خلافًا للشافعي (والأنين) هو قوله " أه " بالقصر (والتأوه) هو قوله آه بالمد (والتأفيف) أف أو تف (والبكاء بصوت) يحصل به حروف (لوجع أو مصيبة) قيد للأربعة إلا لمريض لايملك نفسه عن أنين وتأوه لأنه حينئذ كعطاس وسعال وجشاء وتثاوب وإن حصل حروف للضرورة  (لا لذكر جنة أو نار) فلو أعجبته قراءة الإمام فجعل يبكي ويقول بلى أو نعم أو آري لاتفسد، سراجية؛ لدلالته على الخشوع".
  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں