بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں قیام کا حکم، پہلی اور دوسری رکعت میں قرات کی مقدار


سوال

۱۔  کیا قضا نمازیں ہم بغیر شرعی عذر کے بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں؟ کیوں کہ میں نےکچھ قضا نمازیں بیٹھ کر پڑھی ہیں۔ کیا میری وہ نمازیں ادا ہو گئی ہوں گی یا مجھے پھر سے لوٹانی پڑیں گی؟

۲۔  فرض رکعات یا پھر سنت کی پہلی رکعات میں چھوٹی سورت اور دوسری رکعات میں بڑی سورت پڑھ لی جائے تو غلط ہوگا یا صحیح؟ 

جواب

1۔ فرض اور وتر نماز میں قیام کرنا فرض ہے، اور بغیر کسی عذر شرعی کے قیام ترک کرنا جائز نہیں، اور بغیر عذر کے قیام ترک کرنے والے شخص کے ذمہ سے فرض ساقط بھی نہیں ہوتا،  بلکہ بدستور  اس کی ادائے گی ذمہ میں برقرار رہتی ہے، اور یہ حکم ادا و قضا فرض و وتر میں یکساں ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں بغیر شرعی عذر کے قیام کیے بغیر جو فرض نمازیں آپ نے پڑھی ہیں وہ ادا نہیں ہوئیں، دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’( و منها: القيام ) و هو فرض في صلاة الفرض والوتر، هكذا في الجوهرة النيرة و السراج الوهاج‘‘. ( الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الاول في فرائض الصلاة، ١/ ٦٩، ط: رشيدية)

وفیہ ایضاً:

’’وفي الولوالجية: الأصل في هذا أن المتروك ثلاثة أنواع: فرض و سنة و واجب، ففي الأول إن أمكنه التدارك بالقضاء يقضي و إلا فسدت صلاته...‘‘ الخ (الباب الثاني عشر في سجود السهو، ١/ ١٢٦، ط: رشيدية)

2۔ فجر کی فرض نماز کے علاوہ باقی فرض نمازوں میں پہلی اور دوسری  رکعات میں  برابر قرأت کرنا چاہیے، جب کہ دوسری رکعت میں  پہلی رکعت کی قرأت کی بہ نسبت تین آیات یا اس سے زیادہ آیات زائد پڑھنا مکروہ ہے، تاہم سنن و نوافل میں دوسری رکعت میں پہلی رکعت کی بہ نسبت زائد قرأت کرنا مکروہ نہیں، جیساکہ ’’تبین الحقائق‘‘ میں ہے:

’’وفي الدراية: و إطالة الركعة الثانية علی الأولی بثلاث آيات فصاعداً في الفرائض مكروه، و في السنن و النوافل لايكره؛ لأن أمرها سهل‘‘. (باب صفة الصلاة، ١/ ٣٣٥، ط: سعيد) 

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

’’و استظهر في النوافل عدم الكراهة مطلقاً‘‘. و في الشامية:

’’( قوله: مطلق) ... أطلق في جامع المحبوبي عدم كراهة إطالة الأولي علي الثانية في السنن و النوافل، لأن أمرها سهل، و اختاره أبو اليسر و مشی عليه في خزانة الفتاوي، فكان الظاهر عدم الكراهة‘‘ الخ. (فصل في القراءة، مطلب: السنة تكون سنة عين و سنة كفاية، ١/ ٥٤٣) ط: سعيد) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں