بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں قراءت میں غلطی کرنے کے بعد اس کو صحیح کرلینے سے نماز کا حکم


سوال

اگر امام سے نماز کی قراءت میں غلطی ہو جائے یعنی دو بار غلط ہوا اور تیسری مرتبہ صحیح کیا تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر امام سے نماز کے دوران   قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے  ایسی غلطی  ہوجائے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، پھر بعد میں کسی کے لقمہ دینے  سے یا از خود یاد آنے پر اس غلطی کی اصلاح کرلی تو  اگراسی رکعت میں اس غلطی کی اصلاح کرلی تو نماز  درست ہوجائے گی،  اعادہ لازم نہیں ہوگا  اور اگر  اسی رکعت میں غلطی  کی اصلاح  نہیں کی ، لیکن اس رکعت کے علاوہ کسی اور رکعت میں  غلطی کی اصلاح کی تو ان دونوں صورتوں میں نماز درست نہیں ہوگی۔  اور اگر ایسی غلطی نہ ہو کہ جس سے نماز فاسد ہوتی ہو تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا،  بلکہ نماز ادا ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ذكر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة وكذلك الإعراب".  (1 / 82، الفصل الخامس فی زلۃ القاری، ط؛رشیدیہ)

         حاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں ہے:

"وفي المضمرات  : قرأ في الصلاة بخطأٍ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (1/267، باب مایفسد الصلاۃ، کتاب الصلاۃ)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال 225: اگر کسے ”اما من ثقلت موازینه فامه هاویه“  خواندہ فی الفور صحیحش نمودہ  نماز ادا  کرد، نمازش صحیحش  باشد یا نہ؟

جواب:  "في العالمگیریة: ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحيحاً، قال: عندي صلاته جائزة، وكذلك الإعراب" ، قلت وکذا سمعت شیخي مولانا محمد یعقوب ؒ ، پس بنا علیہ ایں کس نماز صحیح باشد۔(1/168،  باب القرأت ، مکتبہ دارالعلوم کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں