بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کو مستحب قرار دینے پر اشکال کا جواب


سوال

مجھے فتویٰ نمبر 144010201047 پر ایک اشکال ہے، وہ یہ ہے کہ جو عمل سنت اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے وہ مستحب کیسے ہوسکتا ہے؟  کیا ہمارے لیے سنت اور صحابہ کا عمل باعث ترجیح نہیں ہے؟

جواب

فتوی نمبر 144010201047 میں یہ کہا گیا ہے کہ:

’’نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت نہیں ہے، یعنی نبی کریم ﷺ اور خلفاءِ راشدین سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ بعض فقہاءِ کرام نے اسے مستحب لکھا ہے،  خواہ نماز سری ہو یا جہری۔ اور اس قول کے مطابق فتویٰ دیا جاتاہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد اگر نئی سورت شروع کرنی ہو تو بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، یعنی استحباب کے قائلین اسے سنت کہہ کر، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت کہہ کر پڑھنے کا نہیں کہتے، بلکہ تلاوت کے آداب میں چوں کہ یہ شامل ہے کہ نئی سورت سے پہلے "بسم الله الرحمن الرحیم" ہونی چاہیے، لہٰذا نماز میں بھی جب نئی سورت تلاوت کرنا شروع کرے تو بسم اللہ پڑھنا تلاوت کا ادب ہے، بہر حال یہ ضروری نہیں ہے‘‘۔

آپ کے اشکال کا جواب یہ ہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت کے اور  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کے خلاف نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ نہ  بسم اللہ پڑھنا ثابت ہے اور نہ بسم اللہ پڑھنے کی ممانعت ہے، یعنی اس موقع پر چوں کہ بسم اللہ پڑھنا ثابت نہیں؛ اس لیے فقہاء نے بسم اللہ پڑھنے کو سنت قرار نہیں دیا ہے، البتہ تلاوت کے آداب میں یہ شامل ہے کہ نئی سورت سے پہلے "بسم الله الرحمن الرحیم"  پڑھنی چاہیے؛ لہٰذا فقہاء نے اس موقع پر بسم اللہ پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ بہر حال یہ ضروری نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد دوسری سورت شروع کرنے سے پہلے  "بسم الله الرحمن الرحیم" نہیں پڑھتا تو اس سے اجر میں کمی نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں