بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ایک سے زائد سورتین پڑھنے اور ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کا حکم


سوال

اگر ایک ہی رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنی ہوں تو  کیا ہر سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھی جائے گی؟ اور جیسے نماز کے بعد اذکار میں ہم تین بار سورۂ  اخلاص پڑھیں تو  کیا ہر بار بسم اللہ پڑھیں  گے؟

جواب

فرض نمازوں میں ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنا مناسب نہیں ہے، البتہ نوافل و سنن میں ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھی جاسکتی ہیں ۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (1 / 492،سعید):

"(قوله:سورة) أشار إلى أن الأفضل قراءة سورة واحدة، ففي جامع الفتاوى: روى الحسن عن أبي حنيفة أنه قال: لاأحب أن يقرأ سورتين بعد الفاتحة في المكتوبات، ولو فعل لايكره، وفي النوافل لا بأس به".

فتاوی هندیهمیں ہے :

"ويكره تكرار السورة في ركعة واحدة في الفرائض ولا بأس بذلك في التطوع، كذا في فتاوى قاضي خان". (1/107ماجدیهکوئٹہ)

اگر ایک رکعت میں ایک سورت پڑھی جائے یا نوافل وغیرہ میں ایک سے زائد سورتیں پڑھی جائیں تو سورہ فاتحہ کے بعد سورت ملانے سے قبل   نیز ایک سورت  کے بعد  دوسری سورت  سے پہلے بسم اللہ  پڑھنا مستحب ہے۔

یہاں یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ تراویح کے دوران ہرسورت کے شروع میں آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھنی چاہیے، باقی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک " بسم اللہ " ہر سورت کا جز نہیں ہے، بلکہ قرآن کا جز ہے، یعنی  قرآن کی ایک آیت ہے، لہذا  تراویح میں بلند آواز سے ایک مرتبہ بسم اللہ  پڑھ لینے سے قرآن مکمل ہوجائے گا، ہر سورت کے شروع میں بلند آواز سے نہیں پڑھناچاہیے۔

’’امداد الاحکام‘‘  میں ہے:

’’ امام عاصم یا حفص کی تقلید صرف قرآن کی تلاوت اور وجوہِ قرات میں کی جاتی ہے، باقی احکامِ صلاۃ میں ان کی تقلید نہ ہوگی، بلکہ اس میں فقہاء کی تقلید ہوگی، سو ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بسم اللہ صرف ایک مرتبہ پڑھنا ختمِ قرآن کے لیے ضروری ہے، اگرایک دفعہ کسی سورت پر بسم اللہ پڑھ دی گئی تو قرآن پورا ہوگیا اور بہتریہ ہے کہ ایک دفعہ تراویح میں اس آیت کوجہراً پڑھاجائے، جیسا کہ تراویح میں سارا قرآن جہر  سے پڑھاجاتا ہے، اگرامام کسی جگہ بھی بسم اللہ کوجہر سے نہ پڑھے، بلکہ کسی ایک جگہ سراً پڑھ لے تو امام کاختم توپورا ہوجائے گا، لیکن سامعین کے ختم میں ایک آیت کی کمی رہے گی، باقی سب سورتوں کے اول میں بسم اللہ کوجہر سے پڑھنا امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ  ہے، اور ہرسورت کے اول میں سراً پڑھنا جائز ہے، بلکہ اگرمقتدیوں پرتطویل کاخوف نہ ہو تو مستحب ہے۔ واللہ اعلم۔  ۲ جمادی الاولیٰ ۴۵ھ‘‘۔ ( امداد الاحکام 1/630، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی-فتاوی محمودیہ 7/304)

البحرالرائق میں ہے :

"والخلاف في الاستنان أما عدم الكراهة فمتفق عليه ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة كان حسنًا عند أبي حنيفة سواء كانت تلك السورة مقروءةً سرًّا أو جهرًا". (1 / 330،ط:دارالمعرفه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وذكر في المصفى أن الفتوى على قول أبي يوسف أنه يسمي في أول كل ركعة ويخفيها، وذكر في المحيط: المختار قول محمد، وهو أن يسمي قبل الفاتحة وقبل كل سورة في كل ركعة". (1/490،سعید)

تسمیہ پڑھنے کے حوالے سے یہی حکم نماز  کے علاوہ ایک سورت کو  مکررپڑھنے کا بھی ہے،یعنی سورت کو مکرر پڑھنے یا ایک سورت کے بعد دوسری سورت  ملاتے وقت تسمیہ  پڑھنا مستحب ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں