بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز عصر کے بعد کھانے پینے،پڑھنے اور کھیلنے کا حکم


سوال

1۔ کیا نماز عصر کے بعد کھیل کود لازمی ہے؟ اس وقت میں کھانا پینا،کام کاج کرنے کا کیا حکم ہے؟کیا وجہ ہے کہ ملک بھر میں مدارسِ دینیہ میں عصر کی نماز کے بعد طلبہکو کھیل کود کے لیے وقت دیا جاتا ہے ۔ اور پورے ملک میں کہیں بھی اس وقت پڑھائی یا دیگر کسی کام کو نہیں کیا جاتا ؟ اس معاملے میں اگر کوئی حکمت ہے یا شرعی لحاظ سے وہ وقت کھیل کود کا ہی ہے تو ازراہِ کرم وضاحت فرما دیں۔

جواب

نماز عصر کے بعدکھیل کود لازم نہیں ، اور نہ ہی شرع شریف میں اس کی کوئی تاکید یاحکم آیاہے۔آں حضرت ﷺکا معمول عموماًعصر کے بعد ازواجِ  مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس جاکر ان کی خبرگیری اور ان کے احوال دریافت کرنے کا تھا۔عصر کے بعدکھیل کود کی بجائے اگر کوئی کھاناپینا چاہے یا پڑھنا چاہے تو شریعت میں اس کی ممانعت نہیں،اور نہ ہی کسی حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ البتہ دن بھر پڑھائی میں مصروفیت کی بنا پر مدارس میں نمازِ عصر کے بعد  چہل قدمی اور کھیل کے لیے وقت دیا جاتاہے؛  تاکہ مسلسل پڑھائی سے طبیعت اکتاہٹ کاشکار نہ ہو، اور عصر کے بعد چہل قدمی اور کھیل  سے   طبیعت میں نشاط اور چستی پیداہواور تکرارومطالعہ اچھی طرح کیاجاسکے۔امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہمااللہ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ حضرات عصر کے بعد کتب پڑھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے جیساکہ "المقاصدالحسنۃ "میں ہے:

''ولكن قد أوصى الإمام أحمد بعض أصحابه أن لا ينظر بعد العصر في كتاب، أخرجه الخطيب أو غيره، وقال الشافعي فيما رواه حرملة بن يحيى كما أخرجه البيهقي في مناقبه الوراق: إنما يأكل دية عينيه"۔(1/626)

"کشف الخفاء" میں ہے:

" قال: وقد أوصى الإمام أحمد بعض أصحابه أن لا ينظر بعد العصر إلى كتاب، - أخرجه الخطيب قال: وهو من كلام الطب ، كما قال الشافعي : الوراق إنما يأكل من دية عينيه "۔(2/222داراحیاء التراث)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں