بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز جنازہ کا حکم، فرائض، واجبات، شرائط، اور طریقہ


سوال

 نماز جنازہ میں فرض کتنے ہے اور کون کون سے ہے؟ اگر کسی عام آدمی کو امام بنایا جائے اوراب وہ امام نیت کس طرح کرے گا، اور  میت  کے کس اعضاء  کی  طرف کھڑا ہوگا؟ اور اگر کسی آدمی کو میت کی دعا یاد نہ ہو تو کون کون سی  دعائیں آدمی پڑسکتا ہے؟ بالغ اور  نابالغ دونوں کے بارے میں پوچھ  رہا ہوں؟

جواب

نماز جنازہ کا حکم:
نمازِ جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے، یعنی اگر کسی نے بھی میت پر نماز نہ پڑھی تو جن جن لوگوں کو معلوم تھا وہ سب فرض ترک کرنے کے گناہ گار ہوں گے، اور  اگر صرف ایک شخص نے بھی پڑھ لی تو سب کی طرف سے فرض ادا ہوجائے گا ؛ کیوں کہ نمازِ  جنازہ کے لیے جماعت شرط یا واجب نہیں ۔

نماز جنازہ کے صحیح ہونے کی شرطیں :

نمازِ جنازہ کے صحیح ہونے کے لیے دو قسم کی شرطیں  ہیں:

پہلی قسم کی وہ شرطیں جو نماز پڑھنے والوں سے تعلق رکھتی ہیں، نمازِ جنازہ کے لیے وہی شرائط ہیں جو  عام نمازوں کی ہیں،  یعنی طہارت، ستر عورت، استقبالِ قبلہ اور نیت۔

  البتہ دو فرق ہیں:

(1) جنازے کے لیے وقت متعین نہیں ہے، لہٰذا وقت شرط نہیں، بس ممنوع اوقات میں پڑھنا منع ہے، الا یہ کہ عین اسی وقت جنازہ حاضر ہو۔ 

(2)  جنازے کی نماز  نکلنے کا اندیشہ ہو (مثلاً: نمازِ جنازہ ہورہی ہو اور وضو کرنے کی صورت میں گمان یہ ہو کہ نماز ختم ہوجائے گی) تو پانی قریب ہونے کے باوجود تیمم کرکے نمازِ جنازہ ادا کرنے کی اجازت ہے۔ بخلاف اور نمازوں کے کہ ان میں اگر وقت کے چلے جانے کا خوف ہو تب بھی تیمم جائز نہیں ۔
دوسری قسمکی شرطیں وہ ہیں جن کا تعلق میت سے ہے۔ میت سے مراد وہ شخص ہے جو زندہ پیدا ہو کر مر گیا ہو۔ اگر مرا ہوا بچہ پیدا ہوا ہو تو اس پر نمازِ جنازہ کا حکم نہیں ، وہ شرطیں یہ ہیں :
1۔ میت کا مسلمان ہونا۔ پس کافر اور مرتد کی نماز صحیح نہیں ۔

2۔ میت کے بدن اور کفن کا نجاستِ حقیقی اور حکمی سے پاک ہونا۔  اگر نجاستِ حقیقی اس کے بدن سے کفنانے کے بعد خارج ہوئی ہو اور اس سبب سے اس کا بدن یا کفن  نجس ہوجائے تو مضائقہ نہیں ،  نماز درست ہے۔
3۔ میت کے جسم کے واجب الستر حصہ کا پوشیدہ ہونا۔ اگر میت بالکل برہنہ ہو تو اس کی نماز درست نہ ہوگی۔
4۔ میت کا نماز پڑھنے والے کے آگے ہونا۔ اگر میت نماز پڑھنے والے کے پیچھے ہو تو درست نہیں ۔
5۔  میت کا یا جس چیز پر میت ہو اس کا زمین پر رکھا ہوا ہونا۔ اگر میت کو لوگ اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوں یا کسی گاڑی یا جانور پر ہو اور اسی حالت میں اس کی نماز پڑھی جائے تو صحیح نہ ہوگی۔
6۔ میت کا وہاں موجود ہونا۔ اگر میت وہاں موجود نہ ہو تو نماز صحیح نہ ہوگی۔ لہٰذا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ میت کے موجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کا کل جسم یا اکثر حصہ جسم اگرچہ سر کے بغیر ہو یا نصف حصہ مع سر کے موجود ہو۔ اگر اس قدر میت موجود نہ ہو ، مثلاً: صرف سر موجود ہو یا نصف حصہ جسم سر کے بغیر موجود ہو تو اس پر نماز جنازہ صحیح نہیں ہے۔

نماز جنازہ کے فرائض :
1۔ چار مرتبہ اللہ اکبر کہنا، ہر تکبیر یہاں قائم مقام ایک رکعت کے سمجھی جائے گی۔
2۔  قیام یعنی کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھنا، جس طرح فرض واجب نمازوں میں قیام فرض ہے اور بغیر عذر کے اس کا ترک جائز نہیں ۔

نمازِ جنازہ میں واجبات نہیں ہیں، البتہ تین چیزیں سنت ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا۔

2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔

3۔ میت کے لیے دعا کرنا۔ 

نماز جنازہ کا طریقہ :

"نیت" دل کے ارادے کا نام ہے، اس کے لیے زبان سے الفاظ کی ادائیگی ضروری نہیں ہے،   لہٰذا نمازِ جنازہ شروع کرنے سے پہلے بطورِ نیت  کہنے کے لیے مخصوص الفاظ نہیں ہیں، بس دل میں یہ نیت ہو ’’ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے فلاں میت کی نمازِ جنازہ ادا کررہاہوں اور امام کی اقتدا میں ہوں۔‘‘

نمازِ جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ جنازہ کو  سامنے رکھ کر امام اس کے سینہ کے بالمقابل کھڑا ہو اور باقی لوگ امام کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑے ہوں ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی نماز ِ جنازہ پڑھائی اور وسط ( درمیان ) میں کھڑے ہوئے ۔اور بہتر ہے کہ امام کے پیچھے کم از کم تین صفیں بنا ئی جائیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا : یعنی کسی بھی مسلمان پر تین صفیں مسلمانوں کی نماز ِ جنازہ نہیں پڑھتیں؛ مگر اللہ اس کے لیے (جنت ) واجب کردیتا ہے ۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’ مگر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں‘‘۔
صفوں کو درست کر نے کے بعد امام چار تکبیر کہے اور مقتدی بھی چار تکبیریں کہیں؛ مگر صرف پہلی تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھائیں، جیسا کہ عام نمازوں میں کانوں تک اٹھا تے ہیں اور بعد کی تین تکبیروں میں ہاتھ نہ اٹھائیں ۔  پہلی تکبیر پر ہاتھ اٹھاکر باندھ لیں، جیسے عام نمازوں میں باندھتے ہیں۔ پھر  ثناء پڑھیں  جیسے عام نمازوں میں ثناء پڑھی جاتی ہے ۔ پھر دوسری تکبیر کہہ کر درود شریف پڑھاجائے جیسے کہ نماز میں درود ابراہیمی پڑھا جاتا ہے ۔ پھر تیسری تکبیر کہہ کر میت کے لیے دعاکریں ، اگر میت بالغ مرد یا عورت ہے تو یہ دعا پڑھیں: 

"اَللّٰهمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاهدِناَ وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیْرِناَ وَ كَبِیْرِناَ وَ ذَكَرِناَ وَ اُنْثاَنَا ، اَللّٰهمَّ مَنْ أَحْیَیْتَه مِنَّا فَأَحْیِه عَلَى الِاسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَى الِایْمَانِ". 

اگر یہ دعا یاد نہ ہو تو صرف  ”اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَه“  (مذکر میت کے لیے) ”اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَهَا“ یا (مؤنث میت کے لیے) یا اس جیسی دیگر مغفرت کی منقول دعائیں پڑھ لے۔

اور میت اگر نابالغ ہو تو لڑکے کے لیے یہ دعا پڑھیں :

"اَللّٰهمَّ اجْعَلْه لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْه لَنَا اَجْراً وَّ ذُخْرا  وَّ اجْعَلْه لَنَاشَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا".

اور نابالغ لڑکی ہو تو اسی دعا کو اس طرح پڑھیں: 

" اَللّٰهمَّ اجْعَلْها لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْها لَنَا أَجْراً وَّ ذُخْراً وَّ اجْعَلْهالَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً". 

پھر چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیردیں ۔

صحيح البخاري (2/ 89):

"حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عبد الوارث، حدثنا حسين، عن ابن بريدة، حدثنا سمرة بن جندب رضي الله عنه، قال: «صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم على امرأة ماتت في نفاسها، فقام عليها وسطها»".

السنن الكبرى للبيهقي (4/ 48):

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما صلى ثلاثة صفوف من المسلمين على رجل مسلم يستغفرون له إلا أوجب " ... وفي رواية يزيد بن هارون: "إلا غفر له".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 423):

"(ومصلي الجنازة ينوي الصلاة لله تعالى، و) ينوي أيضا (الدعاء للميت) لأنه الواجب عليه فيقول أصلي لله داعيا للميت (وإن اشتبه عليه الميت) ذكرا أم أنثى (يقول: نويت أن أصلي مع الإمام على من يصلي عليه) الإمام، وأفاد في الأشباه بحثا أنه لو نوى الميت الذكر فبان أنه أنثى أو عكسه لم يجز، وأنه لا يضر تعيين عدد الموتى إلا إذا بان أنهم أكثر لعدم نية الزائد.

 (قوله: ومصلي الجنازة) شروع في بيان التعيين في صلاة الجنازة ط (قوله: ينوي الصلاة لله إلخ) كذا في المنية. قال في الحلية: وفي المحيط الرضوي والتحفة والبدائع: ينبغي أن ينوي صلاة الجمعة وصلاة العيدين وصلاة الجنازة وصلاة الوتر لأن التعيين يحصل بهذا اهـ. وأما ما ذكره المصنف فليس بضربة لازب. ويمكن أن يكون إشارة إلى أنه لاينوي الدعاء للميت فقط نظرا إلى أنه لا ركوع فيها ولا سجود ولا قراءة ولا تشهد. اهـ. أقول: وهذا أظهر مما في جامع الفتاوى، من أنه لا بد مما ذكره المصنف، وأنه لو كان الميت ذكراً فلابد من نيته في الصلاة، وكذلك الأنثى والصبي والصبية، ومن لم يعرف أنه ذكر أو أنثى يقول: نويت أن أصلي الصلاة على الميت الذي يصلي عليه الإمام اهـ فليتأمل، ويأتي قريباً ما يؤيد الأول. وهذا، وذكر ح بحثا أنه لا بد من تعيين السبب وهو الميت أو الأكثر، فإن أراد الصلاة على جنازتين نواهما معا أو على إحداهما فلا بد من تعيينها، ويؤيده ما يذكره الشارح عن الأشباه (قوله لأنه الواجب عليه) كذا قاله الزيلعي وتبعه في البحر والنهر، ووجهه ما ذهب إليه المحقق ابن الهمام حيث قالوا: المفهوم من كلامهم أن أركانها الدعاء والقيام والتكبير، لقولهم إن حقيقتها هي الدعاء وهو المقصود منها. اهـ. وفي النتف: هي في قول أبي حنيفة وأصحابه دعاء على الحقيقة وليست بصلاة؛ لأنه لا قراءة فيها ولاركوع ولا سجود اهـ فحيث كان حقيقتها الدعاء كان وجوبها باعتبار الدعاء فيها، وإن قلنا: إنه ليس بركن فيها على ما اختاره في البحر وغيره كما سيأتي في الجنائز، وحينئذ فالضمير في قوله: لأنه الواجب يعود على الدعاء. أما على القول بالركنية فظاهر، وإنما خص من بين سائر أركانها لأنه المقصود منها، وأما على القول بالسنية فلأن المراد بالدعاء ماهية الصلاة لا نفس الدعاء الموجود فيها، لما علمت من أن حقيقتها الدعاء لأن المصلي شافع للميت، فهو داع له بنفس هذه الصلاة وإن لم يتلفظ بالدعاء، فكأنه قيل: لأن الصلاة هي الواجبة عليه، هكذا ينبغي حل هذا المحل فافهم (قوله: فيقول إلخ) بيان للنية الكاملة. اهـ. ح. قلت: وفي جنائز الفتاوى الهندية عن المضمرات أن الإمام والقوم ينوون ويقولون نويت أداء هذه الفريضة عبادة لله تعالى متوجها إلى الكعبة مقتديا بالإمام، ولو تفكر الإمام بالقلب أنه يؤدي صلاة الجنازة يصح، ولو قال المقتدي اقتديت بالإمام يجوز اهـ وبه ظهر أن الصيغة التي ذكرها المصنف غير لازمة في نيتها بل يكفي مجرد نيته في قلبه أداء صلاة الجنازة كما قدمناه عن الحلية، وأنه لايلزمه تعيين الميت أنه ذكر أو أنثى خلافا لما مر عن جامع الفتاوى (قوله: لم يجز) لأن الميت كالإمام، فالخطأ في تعيينه كالخطأ في تعيين الإمام. اهـ. ح أي لأنه لما عين  لزم ما عينه وإن كان أصل التعين غير لازم على ما عرفته آنفا. وفي ط عن البحر: ولو نوى الصلاة عليه يظنه فلاناً فإذا هو غيره يصح، ولو نوى الصلاة على فلان فإذا هو غيره لايصح، ولو على هذا الميت الذي هو فلان فإذا هو غيره جاز لأنه عرفه بالإشارة فلغت التسمية. اهـ. وعليه فينبغي تقييد عدم الجواز في مسألتنا بما إذا لم يشر إليه تأمل".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 414):

"(و) الخامس (النية) بالإجماع (وهي الإرادة) المرجحة لأحد المتساويين أي إرادة الصلاة لله تعالى على الخلوص (لا) مطلق (العلم) في الأصح، ألا ترى أن من علم الكفر لايكفر، ولو نواه يكفر (والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب؛ لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان، مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل (أي صلاة يصلي) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز.

(والتلفظ) عند الإرادة (بها مستحب) هو المختار، وتكون بلفظ الماضي ولو فارسيا لأنه الأغلب في الإنشاءات، وتصح بالحال قهستاني (وقيل سنة) يعني أحبه السلف أو سنه علماؤنا، إذ لم ينقل عن المصطفى ولا الصحابة ولا التابعين، بل قيل: بدعة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209 ۔۔۔۲۱۶ ):

"(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر. (وسنتها) ثلاثة (التحميد والثناء والدعاء فيها) ذكره الزاهدي، وما فهمه الكمال من أن الدعاء ركن ... (وهي أربع تكبيرات) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة (يرفع يديه في الأولى فقط) وقال أئمة بلخ في كلها: (ويثني بعدها) وهو " سبحانك اللهم وبحمدك " (ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم) كما في التشهد (بعد الثانية)؛ لأن تقديمها سنة الدعاء (ويدعو بعد الثالثة) بأمور الآخرة والمأثور أولى،  وقدم فيه الإسلام مع أنه الإيمان لأنه منبئ عن الانقياد فكأنه دعاء في حال الحياة بالإيمان والانقياد، وأما في حال الوفاة فالانقياد، وهو العمل غير موجود (ويسلم) بلا دعاء (بعد الرابعة) تسليمتين ناوياً الميت مع القوم، ويسر الكل إلا التكبير زيلعي وغيره، لكن في البدائع العمل في زماننا على الجهر بالتسليم. وفي جواهر الفتاوى: يجهر بواحدة ... (ولايستغفر فيها لصبي ومجنون) ومعتوه لعدم تكليفهم (بل يقول بعد دعاء البالغين: اللهم اجعله لنا فرطا) بفتحتين: أي سابقا إلى الحوض ليهيئ الماء، وهو دعاء له أيضا بتقدمه في الخير، لا سيما، وقد قالوا: حسنات الصبي له لا لأبويه بل لهما ثواب التعليم (واجعله ذخراً) بضم الذال المعجمة، ذخيرة (وشافعاً مشفعاً) مقبول الشفاعة. (ويقوم الإمام) ندباً (بحذاء الصدر مطلقاً) للرجل والمرأة لأنه محل الإيمان والشفاعة لأجله."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں