قرآنِ مجید کی کس سورہ میں نماز جنازہ کا حکم آیاہے؟
نمازِ جنازہ ہجرت کے پہلے سال مدینہ منورہ میں فرض ہوئی, اس کے بعد وفات پانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپ ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، بکثرت احادیث سے اس کا ثبوت موجود ہے، اور جس طرح قرآنِ مجید سے فرضیت ثابت ہوتی ہے، اسی طرح تواتر سے بھی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ نیز قرآنِ مجید میں بھی نمازِ جنازہ کا ذکر موجود ہے کہ آپ ﷺ منافقین کی نمازِ جنازہ نہ پڑھائیں، اس سے مؤمنین کے لیے اقتضاءً نمازِ جنازہ کا حکم / وجوب ثابت ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ } [التوبة: 84]
ترجمہ : اور ان میں کوئی مرجاوے تو اس (کے جنازہ) پر کبھی نماز نہ پڑھیے اور نہ (دفن کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہوئیے (کیوں کہ) انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ حالتِ کفر ہی میں مرے ہیں۔ (از بیان القرآن)
"وفي الأنوار الساطعة: شرعت صلاة الجنازة بالمدینة المنورة في السنة الأولیٰ من الهجرة". (أوجز المسالک ۲؍۴۲۱، ۴؍۳۸۸ دار القلم بیروت)
السيرة الحلبية = إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون (1/ 489):
"وأيضاً لو كانت معروفةً لهم لصلى صلى الله عليه وسلم على خديجة ومن مات قبلها من المسلمين كالسكران ابن عم سودة أم المؤمنين رضي الله تعالى عنهما الذي هو زوجها، وسيأتي أنه صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة وجد البراء بن معرور قد مات فذهب هو وأصحابه فصلى على قبره، وأنها أول صلاة صليت على الميت في الإسلام، ومعرور معناه في الأصل مقصود.
لايقال: يجوز أن يكون المراد بتلك الصلاة مجرد الدعاء. لأنا نقول: قد جاء أنه كبر في صلاته أربعاً. وقد روى هذه الصلاة تسعة من الصحابة ذكرهم السهيلي، وسيأتي عن الإمتاع: لم أجد في شيء من السير متى فرضت صلاة الجنازة، ولم ينقل أنه صلى الله عليه وسلم صلى على أسعد بن زرارة وقد مات في السنة الأولى: ولا على عثمان بن مظعون وقد مات في السنة الثانية.
وفي كلام بعضهم: صلاة الجنازة فرضت في السنة الأولى من الهجرة، وأول من صلى عليه صلى الله عليه وسلم أسعد بن زرارة، فليتأمل". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004201349
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن