بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز جنازہ پڑھانے کا کوئی مخصوص وقت ہے یا نہیں ؟


سوال

اگر کسیشخص کا انتقال ہوجائے تو اس شخص کا نماز جنازہ پڑھانے کا کوئی مخصوص ٹائم مقرر ہے یا پھر کسی بھی وقت نماز جنازہ پڑھا سکتے ہیں؟ مثلاََ صبح سے لے کر شام تک اور سورج ڈھلنے سے لے کر طلوع آفتاب تک کسی بھی وقت پڑھا سکتے ہیں؟ 

جواب

نمازِ جنازہ پڑھانے کے لیے شریعت مطہرہ کی طرف سے وقت مخصوص نہیں کیا گیا ہے، بلکہ انتقال کے بعد جلد سے جلد تجہیز و تکفین کے بعد نماز جنازہ پڑھادینا چاہیے، چنانچہ  حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اے علی!  تین کام ایسے ہیں کہ ان میں دیر نہ کرو :  نماز جب اس کا وقت آجائے، جنازہ جب تیار ہوجائے ،بے خاوند والی عورت جب اس عورت کے لیے مناسب آدمی مل جائے (تو اس کا نکاح کردو)۔

لہٰذا انتقال کے بعد تجہیز وتکفین وتدفین کے انتظامات ہونے کی صورت میں کسی کے انتظار وغیرہ کی وجہ سے تاخیر کرنے کے بجائے فوراً  نماز پڑھا دینی چاہیے۔

البتہتین مکروہ اوقات  میں جیسے دیگر نمازیں پڑھنا ممنوع ہیں، ایسے ہی نماز جنازہ پڑھنا بھی منع ہے، تین مکروہ اوقات سے مراد: عین طلوعِ شمس، غروبِ شمس اور استواءِ شمس کا وقت ہے۔  لیکن یہ ممانعت تب ہے، جب کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے تیار ہوکر آچکا ہو اور تاخیر کر کے ان اوقات میں پڑھایا جائے، اگر جنازہ تیار ہوکر ان ہی اوقات میں حاضر ہوجائے تو پھر تاخیر کرنے کے بجائے ان ہی اوقات میں پڑھادینا چاہیے، اس صورت میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
مشكاة المصابيح (1/ 192):

"عن علي رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يا علي! ثلاث لاتؤخرها: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤاً» . رواه الترمذي".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370):

"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر، قنية (مع شروق) ... (واستواء) ... (وغروب، إلا عصر يومه) ... (وينعقد نفل بشروع فيها) بكراهة التحريم (لا) ينعقد (الفرض) وما هو ملحق به كواجب لعينه كوتر (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملاً فلا يتأدى ناقصاً، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريماً. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

 (قوله: وصلاة جنازة) فيه أنها تصح مع الكراهة كما في البحر عن الإسبيجابي وأقره في النهر. اهـ. ح. قلت: لكن ما مشى عليه المصنف هو الموافق لما قدمناه عن ح في الضابط وللتعليل الآتي وهو ظاهر الكنز والملتقى والزيلعي، وبه صرح في الوافي وشرح المجمع والنقاية وغيرها.

(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة. (قوله: أو تحريما) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية.

(قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلاً، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج حضرت " وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه وبخلاف سجدة التلاوة؛ لأن التعجيل لا يستحب فيها مطلقا اهـ أي بل يستحب في وقت مباح فقط فثبتت كراهة التنزيه في سجدة التلاوة دون صلاة الجنازة".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں